• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد اسٹرٹیجک ساحلی پٹی ہے جو دُنیا بھر کے جہازوں کی ایک بڑی تعداد کی گزرگاہ ہے، ہماری سمندری حدود تین لاکھ کلومیٹر سے زیادہ ہے جو ہمارے دو صوبوں خیبرپختونخوا اور پنجاب کے رقبہ کے برابر ہے اور جو بلوچستان کے رقبہ سے ذرا کم ہے، اس سمندر میں قدرت کے خزانے چھپے ہوئے ہیں جن کو دریافت کرلیا جائے تو پاکستان کے سارے قرضے ادا ہوسکتے ہیں اور ہماری ساری معاشی مشکلات دور ہوسکتی ہیں تاہم پاکستان نے 70 سال تک اس پر خاص توجہ نہیں دی کیونکہ ہمیں زمین، گھر ،کھیتوں اور کھلیانوں کی عادت ہے، وہ ٹھیک بھی ہے مگر سمندر کی اہمیت کو پاکستان نہیں سمجھ پایا جبکہ دُنیا بھر کے سارے دانشوروں اور امیر البحروں کی متفقہ رائے یہی ہے کہ جس کی سمندروں پر حکمرانی ہوگی اور وہی زمین پر حکمرانی کرے گا۔ اس کی عملی شکل ہم نے انگریز کی غلامی کے شکل میں دیکھی۔ سمندر کے راستے آیا اور سارے ہندوستان پر قابض ہوگیا۔ ہندوستان پر سارے حملہ آور زمین بند ممالک سے آئے تھے۔ غوری، مغل سب کے سب کا تعلق سینٹرل ایشیا سے تھا جو سمندر سے دور علاقہ تھا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد قائداعظم کو اس کا احساس تھا اس لئے PIDC نے شپنگ کارپوریشن آف پاکستان کے نام سے ادارہ بنایا تھا اور اس کو اس وقت کے جدید آلات سے لیس کردیا تھا تاکہ وہ جہاز رانی میں مدد و معاون ثابت ہو، تاہم یہ جہازوں کا ادارہ 65 سالوں تک اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہا اور اب جب چین پاکستان اقتصادی راہداری کا معاملہ سامنے آیا ہے تو بحری قوت بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ شپ یارڈ جس میں تین جہازوں کو بنانے کی گنجائش تھیآج کل اتنا مصروف ہے کہ سات جہاز، گشتی کشتیاں، فرگیٹس اور دیگر زیرتعمیر ہیں کیونکہ اپنے ساحلوں کو دشمن ،قزاقوں، اسمگلنگ، اور دیگر خطرات سے محفوظ کرنا ہے۔ شپ یارڈ کے ریئر ایڈمرل حسن ناصر شاہ آج کل اس کے ایم ڈی ہیں اور 5 دسمبر 2017ء کو انہوں نے 600 ٹن میری ٹائم گشتی کشتی کو سمندر میں اتارنے کی تقریب میںمدعو کیا جس کے مہمان خصوصی پاکستان نیوی کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دو سال پہلے جب میں ایک جہاز کو سمندر میں اتارنے کی تقریب میں گیا تھا تو ریئر ایڈمرل حسن ناصر شاہ نے جہاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہے پاکستان کی خودمختاری کی علامت کہ جب کوئی ملک اپنے دفاعی سازوسامان اور ہتھیار بنانے لگے اور دوسروں پر انحصار نہ رہے تو وہ خودمختار کہلانے والوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ اِس شپ یارڈ میں فریگیڈ جہاز بھی بنے جس میں کئی معروف فریگیٹس بھی شامل ہیں اور پاک بحریہ کے استعمال میں ہے۔ اس کے علاوہ یہ شپ یارڈ چار جدید آبدوزیں بنانے کی تیاریاں مکمل کر چکا ہے۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے بحریہ کے چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے کہا کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صرف ایک شپ یارڈ موجود ہے جبکہ بنگلہ دیش جیسے ملک میں چھبیس شپ یارڈ ہیں اور بھارت میں اس سے کہیں زیادہ، وہ کوشش کررہے ہیں کہ ایک شپ یارڈ بن قاسم میں اور ایک گوادر میں بنایا جائے۔ اس سے پہلے ہونے والی ایک تقریب میں دفاعی پیداوار کے وزیر رانا تنویر حسین نے اپنی تقریر اور پھر علیحدہ گفتگو میں کہا کہ ہمیں فنڈز کی نہیں بلکہ صرف اجازت کی ضرورت ہے تو وہ گوادر کی بندرگاہ میں شپ یارڈ کی تعمیر شروع کردیں گے اور انہوں نے کہا کہ اگر ایک ہزار کلومیٹر کا سمندر ہو اور وہاں پنکچرلگانے یا پیٹرول بھرنے کے لئے پیٹرول پمپ نہ ہو تو کیا یہ عجیب بات نہیں ہے ،کیا ہم موقع کو گوا نہیں رہے ہیں؟پاک بحریہ کے سربراہ جنہوں نے لکھی ہوئی تقریر کے بجائے جو گفتگو کی وہ دل میں اتر جانے والی تھی، انہوں نے کہا کہ صرف بھارت ہمارے سمندروں سے کئی بلین ڈالرز کی مچھلیاں چرا کر لے جاتا ہے، اُسے روکنا ضروری ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کو چوری سے روک دیا جائے اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ یہ کام انکے دور امیر ا لبحری میں مکمل ہوجائے تو کیا ہی اچھی بات ہو۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں، جس کو ہم پوری کرنے کے لئے تیاریاں کررہے ہیں، آج کی گشتی کشتی بھی بحری قزاقوں، انسانی اسمگلروں اور مشکل میں پھنسے ہوئے جہازوں کی مدد میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تجارتی جہازوں کی حفاظت کے ساتھ دوسرے ملکوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے میں پاکستانی بحریہ اہم کردار ادا کررہی ہے۔ میں نے یہ سوال ایک مذاکرے میں کیا تھا کہ ہم نیلگوں بحریہ کب بنا رہے ہیں تو ایک نیوی کے افسر نے جواب دیا تھا کہ ہم عدن سے لے کر کراچی تک تو نیلگوں پانی کی بحریہ ہیں، ہم اپنے جہازوں اور دوسرے ملکوں کے تجارتی جہازوں کی حفاظت کرسکتے ہیں اور نیلگوں پانی کی بحریہ وہی کہلاتی ہے جو تجارتی جہازوں کوحفاظت سے منزل مقصود تک پہنچا دے اور واپس لے آئے۔ تاہم بحیرئہ عرب سے آگے نیلگوں پانی کی بحریہ بننے میں کچھ وقت ضرور لگے گا، جب آٹھ آبدوزیں ہمارے فلیٹ میں شامل ہوجائیں گی، اسکے علاوہ فریگیٹس، ریڈار، اور دیگر سہولتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ حال ہی ہیں پاکستان نے صومالیہ کے سمندر میں پھنسے جہازکو نکالا ہے۔ ایڈمرل ظفر محمود عباسی کا کہنا تھا کہ خلیج عدن سے ہمارے ملک تک سب سے خطرناک علاقہ مانا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے انشورنس بڑھ جاتی ہیں اور جس کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی یا مشینوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں چا بہار کی بندرگاہ سے کوئی خطرہ نہیں تا آنکہ بھارت کوئی گڑ بڑ کرے۔ ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان نے بحریہ کی اہمیت کو محسوس کرلیا ہے اور پاکستان میں فریگیٹ، پیٹرول کشتیاں اور دیگر سامانِ حرب بنانے میں پاکستان کی پیش رفتی مناسب ہے۔ پاکستان چین کے علاوہ ایک اور ملک ایسی کشتیوں کو بنانے کا ادارہ رکھتا ہے جس سے پاکستان کی بحری دفاعی طاقت بڑھے گی اور بھارت جو تیاریاں کررہا ہے اس کا دفاع پاکستان بہ حسن خوبی کرسکتا ہے۔ روس اور بھارت کے درمیان اس بات پر نااتفاقی ہورہی ہے کہ روس نے جو آبدوز چکرا دی تھی اُس کی ٹیکنالوجی تک بھارت نے امریکہ کو رسائی دیدی ہے، جس پر روس نے سخت احتجاج کیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ روس کس حد تک بھارت سے دور جاتا ہے اور پاکستان کے کس قدر قریب آئے گا۔ تاہم پاکستان اس وقت اپنی بحری ضروریات جو زیادہ جدید تو نہیں ہیں تاہم ہمارے درمیانے درجے کے خلا کو پر کرتی نظر آ رہی ہے اُس کو جدید تر بنانے کیلئے کو حکومت کو اقدامات کرنا ہونگے، بہرحال پاکستانیوں کے لئے یہ اچھی خبر ہے کہ اُن کا ایک بحری صوبہ بھی ہے جو دولت سے مالا مال ہے اور اس سے دولت نکالنے کے لئے قدرت انہیں موقع فراہم کردیا ہے۔

تازہ ترین