• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوان حریت پسند رہنما اور سوشل میڈیا پر سرگرم کردار ادا کرنیوالے برہان وانی کی 08جولائی 2016کی شہادت کے بعد تحریک حریت میں جو تیزی دیکھی گئی اور اسکے بعد سینکڑوں خواتین بچے، بوڑھے اور نوجوانوں نے اپنی آزادی کیلئے خون کے نذرانے پیش کئے تو بھارت کے اٹوٹ انگ کے تمام رنگ بکھر گئے ،بھارتی فوج کی دہشت گردی کے یہ مناظر عالمی میڈیا نے بھی دکھائے ۔ جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید جنکا پاکستان میں تحریک حریت کشمیر کے حوالے سے بہت اہم کردار ہے اور انکا یہ کردار بھارت کو ہمیشہ چبھتا ہے ، جب انہوں نے فروری2017ء میں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ ملاقات کے دوران یہ اعلان کیا کہ سال2017ء کشمیریوں کے نام ہے تو اُسی رات انہیں نظر بند کر دیا گیا ۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں کو بھی نظر بند کیا گیا ۔ جب یہ کیس عدالت میں گیا تو جج نے استغاثہ کے وکیل سے بار بار پوچھا کہ انکو نظر بند کیوں کیا گیا ، ان کیخلاف کوئی ثبوت دیں مگر استغاثہ کوئی بھی ثبوت دینے سے قاصر رہا، کیونکہ حافظ سعید کیخلاف تو پورے ملک میں دفعہ144 کی خلاف ورزی کا بھی کوئی مقدمہ درج نہیں تھا ، ہاں البتہ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے حکمراںبھارت کی خواہش پورا کرنے چاہتے ہیں ۔ جج نے کہا کہ ہمیشہ نظر بندی کی تو قانون بھی اجازت نہیں دیتا اور پھر انہیں باعزت بری کر دیا گیا۔اس دوران حکومتی تھیوری سامنے آئی کہ حافظ سعید کیخلاف کارروائی نہ کی جاتی تو امریکہ پاکستان کیخلاف سخت کارروائی کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو شاید ایسی کوئی ضرورت نہیں وہ تو بھارت کیلئے دبائو ڈالتا ہے کیونکہ اگر اسکا اپنا مسئلہ ہوتا تو تین مہینے پہلے نیو یارک کی عدالت میںحافظ سعید سمیت چار افراد پر جو مقدمہ چل رہا تھا وہ عدم ثبوت کی وجہ سے خارج نہ ہوتا۔
حافظ سعید نے نو ماہ کی نظر بندی سے رہائی ملنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سینئر کالم نگاروں اور صحافیوں سے ملاقات کی اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ کشمیرہماری بقا کا مسئلہ ہے ،اب ہم 2018ء کو بھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے نام کرینگے۔ لگتا ہے دونوں ملکوں کے حکمراں پہلے گرفتار کرتے ہیں اور پھر بیک چینل ڈپلومیسی شروع کر دیتے ہیں جس سے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ نقصان ہوا ہے۔ لیکن حقائق یہ ہیں کہ حافظ سعید کی رہائی پر اترپردیش کے علاقے لاکھم میں نوجوانوں نے نہ صرف جشن منایا بلکہ پاکستان کے پرچم لہراتے ہوئے پاکستان اور حافظ سعید زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ حافظ سعید کی رہائی کے بعد کشمیر کی تحریک آزادی کو تقویت ملے گی ۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہمارے وزیراعظم شاہد حاقان عباسی نے ان کی رہائی کے بعد ایک نیوز ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ ہماری عدالتوں کو ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ،اگر بھارت چاہے تو یہ مسئلہ عالمی عدالت انصاف لے جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک خود مختار ملک کا وزیراعظم جس نے دستور پاکستان کا یہ حلف اٹھایا ہو کہ وہ مملکت کے ہر شہری کا تحفظ کریگا ، وہ اپنے شہری کو بھارت کے حوالے کرنے کا کہہ رہا ہے، یہ بات تو طے شدہ ہے کہ آزادی کی جو لہر کشمیر میں شروع ہوئی ہے اور جسطرح کشمیری ریفرنڈم کا اعلان کر رہے ہیں ، یہ آواز پورے ہندوستان میں پھیلے گی۔ وزارتِ خارجہ کو بھی ایک بروقت اور متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
حافظ سعید نے صحافیوں سے ملاقات کے دوران ملی مسلم لیگ کے مستقبل کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ وہ بھرپور طریقے سے الیکشن 2018ء میں حصہ لیں گے اور وہ خود بھی قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ سکتے ہیں۔حافظ صاحب کے اس اعلان کے بعد کئی ایک سوالات سامنے آگئے ہیں کہ حافظ صاحب کی جماعت کا سارا فوکس کشمیر کی تحریک اور فلاحی کاموں کی طرف ہے ۔ اُنکی تنظیم فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ملک بھر کے 78شہروں میں قائم دفاتر لاکھوں غریب لوگوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، سندھ اور پنجاب میں 8مستقل اسپتال، 290ڈسپنریاں اور 90کے قریب ریسکیو سینٹر کام کر رہے ہیں، ایک ہزار کے قریب ایمبولینس سروس سے لاکھوں مریض مفت استفادہ کررہے ہیں جبکہ150سے زائد شہروں میں قائم دسترخوانوں میں غریبوں کو مفت کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں کہیں قدرتی آفات ، سیلاب ، زلزلہ وغیرہ آئیں سب سے پہلے عوام کی خدمت کیلئے انکی تنظیم ہی پہنچتی ہے۔ یہ فلاحی تنظیم ہزاروں آبی منصوبوں کے ذریعے سندھ اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں عوام کو پانی مہیا کررہی ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ غیر مشروط طور پر نہ صرف ان کی حمایت کرتے ہیں بلکہ دل کھول کر عطیات بھی فراہم کرتے ہیں، اب انہوں نے سیاست میں قدم رکھنے کا عندیہ دیا ہے اور جب آپ سیاست میں آتے ہیں تو پھر آپکی غیر جانبداری بھی دائو پر لگ جاتی ہے ۔ عمران خان کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اسلئے حافظ سعید اور ان کی تنظیم کو مکمل طور پر سیاست میں حصہ لینے سے پہلے سوچنا ہوگا۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ جب حافظ سعید منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچیں گے تو ریاست کے مفاد میں ہوگا اور آئے روز ان کے حوالے سے بھارت اور امریکہ کا جو دبائو ہے اسکو روکنے میں بھی مدد ملے گی ۔ دوسری طرف وزیرداخلہ احسن اقبال تویہ اعلان کر چکے ہیں کہ حافظ سعید پر پابندیاں ہیں وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے ۔ لیکن حافظ سعید کی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ نے ان کی نظربندی کے دوران این اے 120کے ضمنی الیکشن میں حصہ لیکر یہ ثابت کیا ہے کہ انکا ایک ووٹ بنک ہے اور اب الیکشن نامزدگی فارم کے ختم نبوت حلف نامہ میں حکومت کی طرف سے تبدیلی اور مذہبی جماعتوں کے پریشر کے بعد واپسی ، پھر اس سلسلہ میں دیئے جانیوالے دھرنے اور اسکے نتیجے میں ن لیگ کے اندر کی توڑ پھوڑ سے مستقبل کا یہ منظر نظرآرہا ہے کہ اگر 2018ء کے الیکشن ہوتے ہیں تو ان میں ن لیگ کیخلاف ووٹ بہت زیادہ پڑے گا اور یہ ووٹ زیادہ تر مذہبی جماعتوں کا ہوگا ۔ گو مذہبی جماعتوں کے مختلف اتحادوں پر بات چیت ہورہی ہے ایک طرف متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے اجلاس ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مولانا سمیع الحق نے عمران خان سے اتحاد کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک انصاف ،جماعت اسلامی کیساتھ حکومتی اتحاد کے اچھے تجربے کے بعد پھر یہ خواہش رکھتی ہے کہ کے پی کے میں مل کر الیکشن لڑیں ۔ اس کیساتھ ساتھ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ جنرل (ر) مشرف نے حافظ سعید کی رہائی کے بعد یہ بیان جاری کیا ہے کہ مجھے لشکر طیبہ پر پابندی نہیں لگانی چاہئے تھی ، اس نے تو کشمیر کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہمارا ملی مسلم لیگ سے اتحاد ہو سکتا ہے ۔ لگتا یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل توشاید بحال نہ ہو سکے مگر تحریک لبیک ، ملی مسلم لیگ جیسی جماعتیں نہ صرف اکٹھی ہو جائینگی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کیساتھ مل کر ن لیگ کیخلاف ایک بڑی قوت بن کر سامنے آسکتی ہیںاور ایسی مذہبی ،سیاسی جماعتوں کا آئندہ عام انتخابات میںبڑا اہم کردار ہوگا جبکہ ماڈل ٹائون سانحہ کی رپورٹ آنے کے بعد اسکے امکانات اور بڑھ گئے ہیں۔
ایسے حالات میں اگر حافظ سعید ملی مسلم لیگ کا مستقبل دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا لائحہ عمل اور منشور بنانا ہوگا کہ ایک تو کشمیر کی تحریک آزادی کی جدوجہد متاثر نہ ہو بلکہ اسکی وجہ سے اضافہ ہو جبکہ فلاحی کاموں کا جو بیڑا انہوں نے اٹھا رکھا ہے اُسکی غیر نبداری بھی متاثر نہ ہو، اگر تو وہ اسطرح کی منصوبہ بندی کے تحت میدان میں اترتے ہیں تو ممکن ہے انہیں عوام کی طرف سے پذیرائی ملے۔ لیکن اگر وہ واضح ، غیر جانبدار منشور اور ایجنڈا نہیں بناپاتے تو پھر انکا بنا بنایا وقار گندی سیاست کی نذر ہو جائیگا۔

تازہ ترین