• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ جو ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں ادبی میلے یا جشن ادب ہو رہے ہیں ان سے ادب و ثقافت میں دلچسپی لینے والے عام آدمی کی تہذیبی اور ثقافتی تربیت بھی ہوتی ہے۔ یہ بات سارہ حیات نے فیصل آباد کے چوتھے جشن ادب کے پہلے اجلاس میں کہی۔ اور ہم نے سوچا کہ یہ بات تو ہمارے دماغ میں آئی ہی نہیں تھی۔ ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے تھے کہ ان میلوں سے علمی ادبی اور ثقافتی مباحث کو فروغ ملتا ہے۔ مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں کے ادیبوں اور فن کاروں کو ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور خیالات کا تبادلہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اور ضمنی طور پر ادب پڑھنے والوں اور ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے والوں کو اپنے پسندیدہ لکھنے والوں اور فن کاروں کو دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کا وقت بھی مل جاتا ہے۔ سارہ حیات نے بتایا کہ فیصل آباد کے پہلے ادبی میلے کے ایک اجلاس میں موجود کچھ لوگوں نے عبداللہ حسین کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ اور ان سے ایسے سوال کئے تھے جو ان کے ناولوں یا اردو ادب سے تعلق ہی نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت تک لوگوں کو یہ شعور نہیں تھا کہ اس قسم کی محفلوں میں سوال کیسے کئے جاتے ہیں۔ لیکن جوں جوں یہ میلے آگے بڑھتے گئے ان محفلوں میں شرکت کرنے والے عام آدمی کو بھی سوال کرنے کا سلیقہ آ گیا۔ اور یہ بات سولہ آنے صحیح بھی تھی، کہ جشن کے دونوں دن جہاں اس شہر کا وسیع و عریض نصرت فتح علی ہال نچلی سیڑھیوں اور اسٹیج کے کناروں تک بھرا ہوتا تھا وہاں جس سلیقے سے لکھنے والوں اور اسٹیج اور ٹیلی وژن پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والوں کی باتیں سننے اور ان کے درمیان ہونے والے بحث و مباحث پر توجہ دی جاتی تھی اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہاں موجود سب لوگ ان سرگرمیوں میں دل و جان سے شریک ہیں۔
ہم جب بھی ایسے کسی ادبی جشن میں شریک ہوتے ہیں تو وہاں یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ اس جشن کا بنیادی موضوع کیا ہے۔ اور یہ موضوع پہلے اجلاس کے کلیدی خطبے سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے۔ فیصل آباد کے افتتاحی اجلاس میں ایک نہیں، دو کلیدی خطبے تھے۔ ایک آئی اے رحمٰن صاحب کا اور دوسرا اعتزاز احسن کا۔ اعتزاز احسن اپنی انگریزی کتاب INDUS SAGA (جس کا اب اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے) کے حوالے سے بات کر نے والے تھے۔ مگر انہیں اپنا لڑکپن یاد آ گیا۔ وہ لڑکپن جب وہ پرانے لائل پور اور آج کے فیصل آباد میں چھٹیاں گزارنے آیا کرتے تھے۔ انہیں اپنا لڑکپن اور پرانا لائل پور یاد آیا اور پھر آج کا زمانہ ان کے سامنے آیا اور وہ قدغنیں یاد آ گئیں جو آج سچی اور کھری بات کرنے پر لگائی جاتی ہیں۔ یہ قدغنیں ایک طرف مقتدر حلقوں کی طرف سے لگائی جاتی ہیں تو دوسری طرف ان غیر ریاستی حلقوں اور غیر سرکاری عناصر کی طرف سے بھی لگائی جاتی ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کو اپنی مٹھی میں دبا رکھا ہے۔ رحمٰن صاحب نے یوں تو اردو ادب کے ستر سال کا جائزہ لیا لیکن ان کا بنیادی موضوع بھی اظہار رائے کی آزادی ہی تھا۔ اب چونکہ رحمٰن صاحب نے اپنی زندگی بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد کے لئے ہی وقف کر رکھی ہے اس لئے ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ آج یہ انسانی حقوق کون پامال کر رہا ہے اور کیسے پامال کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں تو یہ سن کر حیرت ہوئی کہ رحمٰن صاحب اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اردو ادب سے بھی اپنا رشتہ ٹوٹنے نہیں دیتے۔ وہ ان ادیبوں اور شاعروں کا محاکمہ بھی کر رہے تھے جو آج لکھ رہے ہیں۔ اس اجلاس کی صدارت زہرا نگاہ کر رہی تھیں۔ اب ان کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ وہ مجسم ہماری تہذیب ہیں۔
اب ہم اپنی خوشی کا اظہار کر ہی رہے ہیں تو یہ بھی بتا دیں کہ ہمیں شیبا عالم (جو ادب کی ڈاکٹر بھی ہیں) اور اپنے مرحوم ناشر دوست نیاز احمد کے پوتے اور افضال احمد کے نوجوان صاحبزادے ایاز احمد کی میزبانی دیکھ کر جو خوشی ہوئی ہے وہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ شیبا نے کئی اجلاسوں کی میزبانی کی اور ایسی میزبانی کی کہ جس سے بھی بات کی اس کی پوری ذاتی اور فنی شخصیت حاضرین کے سامنے آ گئی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ادبی جشن منانے والوں کو خوش ہونا چاہئے کہ انہیں ایک اور منجھی ہوئی میزبان مل گئی ہیں۔ ایاز احمد نے حسن معراج کی انگریزی کتاب Beyond our Degree of Seperation پر مصنف سے بات کی تو ایسا لگا جیسے یہ تو جانے کب سے لکھنے والوں کے ساتھ ایسی باتیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ چلیے، ہمیں انگریزی ادب پر بات کرنے والا ایک اور نوجوان مل گیا۔ اصغر ندیم سید سے آپ کسی بھی موضوع پر بات کرا لیجئے آپ کو ایسا لگے گا جیسے اس موضوع پر ان سے زیادہ اور کوئی جانتا ہی نہیں ہے۔ بات سے بات نکالنے کا سلیقہ اسے کہتے ہیں۔ انہوں نے ضیا محی الدین سے باتیں کیں۔ اور باتوں ہی باتوں میں ضیا محی الدین کے پورے فنی سفر میں حاضرین کو بھی شریک کر لیا۔ ظاہر ہے، اگر کسی ادیب یا فن کار سے سلیقے کی باتیں کی جائیں تو اسے بھی اپنا دل کھول کر رکھ دینے میں مزہ آتا ہے۔ ضیا محی الدین بھی مزے مزے میں اپنی فنی زندگی کی پرتیں کھولتے رہے۔ کچھ ایسا ہی افتخار عارف کے ساتھ ہوا۔ ان سے بات کر رہے تھے ڈاکٹر نجیب جمال۔ لیکن شاعروں کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالتے ڈالتے اپنی شاعری کی طرف چل دیتے ہیں۔ اس میں ان سے بات کرنے والے کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ افتخار عارف وہ شاعر ہیں جن کا کوئی ایک شعر نہیں بلکہ ان کی بے شمار غزلیں ضرب المثل بن گئی ہیں۔ افتخار عارف ایک شعر پڑھتے ہیں تو حاضرین ان کی پوری غزل سنا دیتے ہیں۔ انہوں نے باتیں بھی کیں اور شعر بھی سنائے۔ ہمیں تو حسینہ معین اچھی لگیں۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں تو اب ٹیلی وژن دیکھتی ہی نہیں۔ یعنی آج کل کے ڈرامے دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہوتے۔ ان کے سامنے ٹی وی کی نئی ڈرامہ نگار آمنہ مفتی بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جب یہ بتایا کہ وہ اپنے ڈراموں میں کس قسم کے موضوع پیش کرتی ہیں، تو حسینہ معین پریشان ہو گئیں۔ ’’یہ برائیاں اور یہ گھریلو جھگڑ ے سامنے لانا ضروری ہیں؟ کیا ہندوستانی ٹی وی کی نقل کرنا لازمی ہے؟‘‘یہ ان کا سوال تھا۔
اس جشن میں اتنے بہت سے موضوع زیر بحث آئے اور اتنے فن کاروں کے ساتھ باتیں کی گئیں کہ ان سب کا ذکر اس کالم کی حدود سے باہر نکل جائے گا۔ اس لئے اب ہم ان کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی رونمائی اس جشن میں کی گئی۔ ان میں ایک تو ڈاکٹر انوار احمد کی تنقیدی کتاب ’’اردو افسانہ۔ ایک صدی کا قصہ‘‘ تھی۔ اور دوسرا طاہرہ اقبال کا ناول ’’نیلی بار‘‘ تھا۔ انوار احمد نے اردو افسانے کی پوری ایک صدی کا جائزہ لیا ہے۔ اور دو سو پینتالیس افسانہ نگاروں کا تعارف کرایا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انوار احمد نے ایک بھی افسانہ نگار نہیں چھوڑا حتیٰ کہ جو نئے افسانہ نگار تفصیل سے بچ گئے ہیں انہیں آخری چند صفحوں میں نبٹا دیا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ کتاب ہمارے افسانوں کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ طاہرہ اقبال کا ناول ’’نیلی بار‘‘ اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے جہاں یہ جشن ہو رہا تھا۔ انہوں نے اس ناول میں اس علاقے کو زندہ جاوید کر دیا ہے۔ ناول کے ہیرو اس علاقے کے کردار نہیں بلکہ وہ علاقہ خود ہی ناول کا ہیرو بن گیا ہے۔ طاہرہ اقبال کی اپنی زبان اور ان کا اپنا اسلوب ہے جو انہیں دوسرے لکھنے والوں سے ممتاز کرتا ہے۔

تازہ ترین