• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تین حروف امریکہ پر جس نے گریٹر اسرائیل کی باضابطہ بنیاد رکھ دی۔ یہ جنونی اور غاصب ٹرمپ کی بہادری نہیں، ہماری کمزوری ہے۔ ہماری نیتوں میں جو فتور اوراپنی بنیا د چھوڑنے کی جو روِش ہے اس کے سبب یہ ہو کرہی رہناتھا ۔ بحیثیت مجموعی ہم سوا ارب مسلمان اپنے گریبان میں جھا نکیں تو اس کا جواب بڑی آسانی سے مل جائے گا ، افسوس کہ ہم جل گئے مگر ہمارا بَل سیدھا نہ ہوا، ہم حکمران ہوں یا عوام ہمیشہ بد دیانتی کے اسیر رہتے ہیں ، اپنے آپ سے مخلص ہیں نہ ہی اپنے دین اوراپنے ملک سے ۔ آپ ایک سو او آئی سی بنالیں، درجنوں اسلامی عسکری اتحاد بنالیں مگر ایک معتوب قوم سے اپنی درگت بنواتے رہیں گے۔ ہم نے قومی وعالمی سطح پر جو وطیرہ اپنا رکھا ہے وہی ہمارا انجام بن رہا ہے۔ یہ کرپشن، بد دیانتی، لوٹ مار اوردھونس دھاندلی پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں تمام اسلامی ممالک اس شیطانی حصار کے دائرے میں ہیں۔ دشمن اپنا کام دکھا رہا ہے اورہم اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں الجھ چکے ہیں ۔ معیشت کی فکر ہے نہ ملکی سلامتی کی۔ فکر ہے تو اپنے اپنے اقتدار کی۔ حالات جو رُخ اختیار کررہے ہیںوہ مسلم دنیا کی بے چینی میںمزید اضافہ کریں گے۔
ہماری تاریخ کے بدترین حالات سے بے خبر سرد ترین موسم میں گرم ہوتے سیاسی ماحول کامزہ لیتے ہمارے لیڈروں کو دیکھئے، ایسے میں کچھ رقص بھی ہوجائے، تھوڑی دھمال بھی تو خوب مستی چھائے۔ سیاسیات کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی یافتہ ڈاکٹر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر پریڈ گرائونڈ میں جودھمال ڈالی تو رقص کرنے والے بھی محو حیرت تھے اور دھمال والے بھی مگر ان کا کیا کیجئے جو ان دونوں کے درمیان پس رہے ہیں یعنی غریب عوام، بھوک کے مارے کسان، روٹی کو ترستے مزدور، بے روزگار نوجوان جو پیٹ کی خاطر دیہاڑی پر بھی سیاسی بازی گروں کا تماشا دیکھنے چلے آتے ہیں۔ زرداری صاحب کے ناقدین بڑی دُور کی کوڑی لائے ہیں کہ آخر سندھ کی دھرتی، لاڑکانہ کی روحانیت چھوڑ کر پنجاب کے دل لاہورسے دُور ڈاکٹر زرداری کو پریڈ گرائونڈ میں دھمال ڈالنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ باپ دھمال ڈالے بیٹا صرف مسکرائے یہ تماشا بھی بڑا عجیب ہے۔ کیا جو سیاسی روحانیت باپ کو میسر ہے وہ بیٹے کو نہیں ، یہ شادمانی کس لئے؟ یہ مسکراہٹ کیوں؟ یہ خمار کیسا؟ کیسا برا وقت آگیا ہے آج ہماری سیاست پر، ہمارے لیڈر ہماری ہی بے بسی پر دھمال ڈال رہے ہیں اور محو رقص ہیں، ایجنڈا ایک ہی ہے، عوام کاخون نچوڑنا، ووٹ کی خاطر لاشوں پررقص کرنا ، کسی کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں بظاہر وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیںحقیقت میں یہ گالیاں ہم غریبوں کو ہی دے رہے ہوتے ہیں، جو دیہاڑی پر ان کے جلسوں میں دھمال پر داد دینے چلے آتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے سِپہ سالار نے یقین دلا دیا حکومت کرنافوج کا کام نہیں، ۔اب وقت آگیا کہ سب اپنا اپنا کام کریں۔ سپہ سالار نے تو کہہ دیامیں جمہوریت پسندہوں، ووٹ کی طاقت اہم ہے پاکستان میں جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں، اب دیکھنا تو یہ ہے کہ جمہوریت کے رکھوالوں اور دعوے داروں نے جو ہر وقت جمہوریت کے لُٹنے اور برباد ہونے کا رونا روتے ہیں کیا وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے اپنا کوئی مثبت کرداراداکرنے کو تیار ہیں۔ سپہ سالار تو کہہ رہا ہے کہ ہم محافظ ہیں اپنی دھرتی کے، اپنے عوام کے، اب سیاست دان جانیںاوران کاکام۔ ہمارے سیاست دانوں کی حالت یہ ہے کہ کارکردگی ٹکے کی نہیں اورعوام کا سامنا کرنے سے خوف زدہ بھی اور کٹی سیاسی پتنگوں کو لوٹنے کے چکرمیں ’’جھامبے‘‘ اٹھائے، دھمال ڈالتے اَنّھے واہ بھاگے دوڑے جارہے ہیں۔ بالکل سیاسی بسنت کاموسم آگیا، ڈھول کی تھاپ پر پتنگیں لوٹنے کا شوق پورا کیا جارہاہے۔کاش خادم اعلیٰ پنجاب بسنت کو زندہ رکھنے کی کوئی تدبیر کرتے، پھرہماری نوجوان نسل سمجھ سکتی تھی کہ ایک پتنگ لوٹنے کی خاطر لٹیرے کس طرح جھامبے اٹھائے اِدھر اُدھر بھاگے چلے جاتے ہیں۔ کیا منظر ہے ایک کٹی پتنگ اور لوٹنے والا سارامحلہ۔ ہمارے ڈاکٹر زرداری صاحب اور بڑے خان صاحب کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ سیاسی بسنت ہے آسمان پر سبز، نیلی، پیلی ،کالی، سفید پتنگوں کی بہار ہے۔ ہر چھت پر بینڈ باجا بج رہا ہے اورہر چھت کامالک ہجوم اکٹھا کرنے کے لئے ایسے نئے نئے تماشے لگا رہا ہے جسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے۔کسی سیاسی لٹیرے کے پاس اپنا کچھ نہیں سوائے جھامبے کے۔ صرف دوسروں کا سیاسی مال لوٹنے کے چکرمیں ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں۔
یہ بے رحم سیاست بھی کیا چیز ہے۔ بڑوں بڑوں کو بیچ چوراہے نچا دے۔ ناکوں چنے چبوا دے۔ ماڈل ٹائون سانحہ کی رپورٹ کیا منظر عام پر آئی ،ڈاکٹر صاحب (کینیڈا والے) اپنا ہی سیاسی کلینک کھول بیٹھے ہیں اور سارے سیاسی بیمار ان سے اپنا علاج کرانے چلے ہیں۔ گویا لاشوں کے سیاسی وارث پیدا ہوگئے جو اقتدار کی جنگ میں جمہوریت کا کفن دفن کریں گے۔ مولانافضل الرحمٰن نے کیا خوب فرمایاہے کہ کیا پیپلز پارٹی اتنی ہی سیاسی یتیم ہوگئی ہے کہ زرداری صاحب کو اپنی سیاسی ڈگری کی تصدیق کے لئے کینیڈین ڈاکٹر صاحب کا سہارا لینا پڑے، یہ عروج کو زوال، زوال کو عروج کی تازہ کہانی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کسی کے پَلّے کچھ نہیں یا یوں سمجھئے کہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ پڑھی جارہی ہے اور حلوائی بھی خوش فہمی کا شکار ہے کہ اس کی دکان چل پڑی۔ رابطے ہو رہے ہیں،تشہیر کی جارہی ہے، مستقبل کے قیافے ہیںوقت سے قبل چالیں چلی جارہی ہیں۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ پرویز خٹک سے لے کر ڈاکٹر زرداری تک ہر کوئی ڈگڈگی پر ناچنے پرمجبورنظر آتا ہے۔ کوئی دھمال سے سیاسی روحانیت حاصل کر رہاہے تو کوئی رقص سے اپنے فن کامظاہرہ کررہا ہے۔ پنجاب فتح کرنے کی یہ منصوبہ سازی اور اس کے نتیجے میں مستقبل کاسیاسی منظر نامہ ملکی عوامی مفاد میں تو بالکل نظر نہیںآرہا۔ ایک بار پھر کنٹینر چلے گا ، پہیہ جام ہوگا، افراتفری پھیلے گی، حکمرانوں پر دبائو بڑھے گا، حتَّی الوسع وفاق کے بعدپنجاب حکومت کو چاروں خانے چِت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دھمال اور رقص کرنے والوں کی مستی اور یہ سُرور حیرت کا باعث ہے۔ ماضی میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے گلے مِل رہے ہیں، کس کے قول پر اعتبار کریں، عوام تو چکرا گئے ہیں۔ڈاکٹر زرداری کی پریڈ گرائونڈ سے شروع ہونے والی نئی سیاسی اِننگ دلچسپی سے خالی نہیں، کیا وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ’’پنڈی والے ‘‘ ان کے بہت قریب ہیں اور 14 اگست2018 ء کی پریڈ کی سلامی انہیں ہی پیش کی جائے گی، اگر یہ تاثر دیا جارہا ہے تو پھر ان کی سوچ کو آخری سلام۔ سیاست کی جس یونیورسٹی سے زرداری صاحب نے پی ایچ ڈی کی ہے یقیناً اس یونیورسٹی کے عالم فاضل اساتذہ بھی اس سوچ کو نہیں پا سکتے۔ لیکن آثار کچھ اور ہی رخ اختیار کرتے نظر آرہے ہیں۔ قومی اسمبلی قبل از وقت تحلیل کرنے کا عندیہ دیاجارہا ہے۔ اپوزیشن قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے پرغور کررہی ہے۔ سرگودھا کا سیالوی گروپ پنجاب بھر میں مسلم لیگ کے ووٹ بینک کو فرقہ کی بنیاد پر تقسیم کرنے کوتیار بیٹھا ہے۔خدشہ ہے کہ دھمال کے نام پرعوام کی لاشوں پر رقص کا سلسلہ جاری رہے گا مگر عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، وہ زندہ بھی لاشیں بن کر ہی رہیں گے۔

تازہ ترین