• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحافی کسی فرد یا ادارے کی تعریف و توصیف میں بخیل واقع ہوئے ہیںجبکہ جائز یا نا جائز تنقید کوصحافت کا طرئہ امتیاز تصور کیا جاتا ہے۔لیکن صحافت تنقید کے علاوہ خودتنقیدی بھی ہے ۔ صحافی کو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی جرأت ہونی چاہئے۔اس عمل پر کاربند صحافی کو معاشرے میں باعزت اور امتیازی مقام حاصل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تنقید کے لئے علم ضروری ہے۔لیکن نکتہ چینی کے لئے جہالت کافی ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد وزیر داخلہ احسن اقبال کے اس احسن اقدام کی تعریف کرنا ہے کہ انہوں نے سلطان اعظم تیموری کو وفاقی دارالحکومت پولیس فورس کا سپہ سالار مقرر کر کے امید کی ایک کرن روشن کر دی ہے۔ جس کے بعد امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے اور جرائم کی بیخ کنی کی مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ پولیس کی تنظیم نو کرنا اوران کی استطاعت کا ر میں اضافے کی راہیں نکالنا ہے۔اس کابہر حال سہرا وزیر داخلہ کے سر ہوگاکہ انہوں نے میرٹ کو اوّلیت دیتے ہوئے اس منصب پر ایک ایسے شخص کو فائز کیا جو فن سپاہ گری کا علم رکھتے ہوئے چیلنجوںکا مقابلہ کرنا جانتا ہے اور ایک وقت میں کئی محاذوں پر لڑنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس سے قبل اس شہر میں نا اہل پولیس آفیسر طویل مدت تک اس حساس اور اہم منصب پر فائز رہے لیکن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے۔ کیونکہ وہ اس منصب کے اہل نہیں تھے۔ ان کے مقاصد قوم وملک کی خدمت نہیں بلکہ کچھ اور تھے جنہوں نے امن عامہ کو بہتر بنانا تو کجا پولیس کے پورے نظام کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔
لیکن چھ چھ محاذوں پر لڑنے کی خصوصیت رکھنے اور پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھنے والے اس شخص سے عوام کو بہت امیدیں ہیں ا ور یقین ہے کہ یہ سپاہی عوام کی امیدوں پر پورا اترے گا۔ شرط یہ ہے کہ وزیر داخلہ اس کی حوصلہ افزائی کریں ، بھر پور تعاون کریں اور آہنی دیوار کی طرح اس کے پیچھے کھڑے ہو جائیںتو یقیناً اس شخص کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ نام ذوالفقار چیمہ، آفتاب سلطان، ناصر خان درانی ، شوکت جاوید ، عباس خان، ملک نواز ، حسن علوی، جاوید اقبال، احسان صادق، جاوید اکبر ریاض، اشفاق احمد خان، سکندر حیات اور بی اے ناصرجیسے آئیڈیل پولیس آفیسروں کی فہرست شامل ہے ۔
پولیسنگ کے نقطہ نظر سے وفاقی دارالحکومت انتہائی مشکل اور چیلنجنگ علاقہ ہے ۔ یہ مقتدر اور طاقتور لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں قانون نافذ کرنا انتہائی دشوار ہے کیونکہ پولیس اور انتظامیہ ان طاقتورلوگوں کے زیر اثر ہوتی ہے۔ جو قانون کی بالا دستی اور یکساں نفاذ او ر اسکی عملداری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے سدباب کیلئے اسلام آباد پولیس کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ دو صدی پرانا انگریز دور کا یہ نظام جس پر پولیسنگ کی عمارت کھڑی ہے، فرسودہ اورمتروک ہو چکا ہے۔ جس کے ذریعے موجودہ دور کے چیلنجوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ نظام صرف طاقتور لوگوں کے تحفظ اور مظلوم اور کمزور افراد کو مزید دبانے کے لئے بنایا گیا تھا۔جس کے نتیجے میں معاشرے سے انصاف کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔اور ایسے معاشرے رفتہ رفتہ دم توڑ جاتے ہیں۔ جن کی بنیاد انصاف پر استوار نہیں ہوتی۔انگریز دور کے اس فرسودہ نظام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ردوبدل کر کے ہی پولیس اصلاحات ممکن ہو سکتی ہیںپرانی لکیروں کو کرید کر درست راستہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
اگر وفاقی دارالحکومت میں نافذالعمل بندوبست کا پنجاب پولیس سے موازنہ کیا جائے تو یہاں بے شمار کمزوریوں کے ساتھ پولیس اختیارات کے حوالے سے محتاج اور بے بس دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ پنجاب پولیس کمانڈ کو پولیسنگ کے تمام اختیارات حاصل ہیں جس کے تحت پولیس کمانڈر امن و امان قائم رکھنے اور جرائم کے خاتمے کے لئے تما م انتظامی اور آپریشنل اقدامات کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
پولیس کا نظام چلانے کے تمام شعبے جن میں آپریشن، ٹریفک ، اور لاجسٹک شامل ہیں۔جو سی پی او کے زیرانتظام ہوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں یہ نظام چلانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں تمام شعبوں کی کمانڈ علیحدہ علیحدہ ہوتی ہے۔ان مختلف شعبوں میںباہمی تعاون کا فقدان پایا جاتا ہے اور آپریشن تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔
ٹریفک کا نظا م اور بہائو اس علاقے کے عوام کے مزاج ، اخلاقیات اورنظم کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ نئے آئی جی کو ٹریفک کے شعبے پرخصوصی توجہ دینی ہوگی تا کہ عالمی سطح پر وفاقی دارالحکومت کا وقار بلند کیا جا سکے اور عوامی نظم کا خوبصورت عکس پیش کیا جا سکے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان باہمی رابطے اور تعاون بہتر بنانے اور راولپنڈی پولیسنگ خصوصاً ٹریفک کا نظام توجہ کا طالب ہے۔ کیونکہ راولپنڈی کی اچھی یا بُری ٹریفک کے اثرات براہِ راست اسلام آباد پر مرتب ہوتے ہیں۔عموماًراولپنڈی کی غیر منظم ٹریفک کا بہائو اسلام آباد کی ٹریفک پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تھانہ کلچر کا خاتمہ ہر آنے والے پولیس سربراہ کی خواہش کے علاوہ اسکی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ لیکن کسی دور میں اس کی تکمیل ممکن نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ مسائل کا انبار ہے۔ جو ترجیحات کی اہمیت پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ تا ہم تھانہ کلچر کی ابتداتھانوں کی تطہیر اور کرپٹ تھانیدار وں کو فارغ کرنے کے علاوہ سزااور جزاکے قانون پر سختی سے عمل میں پوشیدہ ہے۔ اس مشن کو آگے بڑھانے اور اس کی تکمیل صرف آئی جی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کے لئے وزیر داخلہ کی توجہ اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین