• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہمارے ہاں آبادی میں اضافہ بے لگام ہے اور شہروں کی طرف نقل مکانی روز افزوں تاہم انفراسٹرکچر وہی برسوں پرانا اور فرسودہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وقت کی ضرورت کے مطابق چیزوں میں بہتری لانے اور ان کی استعداد کار بڑھانے کا چلن سرے سے مفقود ہے۔ بجلی اور گیس کی مثال لے لیں، ان کی غیر اعلانیہ اور طویل بندش نے عرصہ دراز سے عوام کو اک عذاب مسلسل سے دوچار کررکھا ہے۔ حکمرانوں کا تیقن آمیز لہجہ عوام کی تشفی کے لئے ماضی میں تو شاید کارگر ہوتا ہو، اب ایسا نہیں کہ عوام برسوں سے یہ اذیت جھیل رہے ہیں۔ موسم گرما ہو توالیکٹرونک اشیا کا استعمال بڑھ جاتا ہے اور بجلی کا شارٹ فال بھی، نتیجہ لوڈشیڈنگ کی صورت سامنے آتا ہے۔ موسم سرما کا آغاز ہو تو بھی حالات میں تبدیلی کم ہی دکھائی دیتی ہے اور کہیں بارش یا آندھی طوفان آجائے تو فیڈر ٹرپ کر جاتے ہیں جیسا کہ پیر کی شام ہوا اور صرف لاہور میں 100سے زائد فیڈر ٹرپ کر گئے جس سے عوام الناس کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے دنوں وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے نئی توانائی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے جہاں اور بہت سی باتیں کیں، یہ بھی تسلیم کیا کہ بجلی کا نظام انتہائی فرسودہ ہے، ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ بجلی کے فیڈر ٹرپ ہونے کی وجہ سے ایلومینیم کے تاروں کا استعمال ہے، اویس لغاری نے بجلی کی ترسیل کے نظام کی فر سودگی کو تسلیم کیا ہے تو اس کی درستی اور تجدید بھی انہی کے فرائض میں شامل ہے، انہیں فوری طور پر اس نظام کو درست کرنے کی بارآور سعی کرنا ہوگی۔ چند برسوں سے بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت بھی بلائے بے درماں بن کر نازل ہوئی ہے، جونہی گیس کی قلت ہوتی ہے ایل پی جی کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے جس پر حکومت کم ہی دھیان دیتی ہے، یوں معمولات زندگی مفلوج سے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بجلی اور گیس عصر حاضر کی بنیادی ترین اشیا میں شامل ہیں، ان کی عوام کو بلاتعطل فراہمی یقینی بنانا حکومتی فریضہ ہے۔ عوام یہ مسائل بہت بھگت چکے اب انہیں اس سے نجات دلانے کے لئے مستقل اقدامات کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین