• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے معاشی پالیسیوں کا تسلسل انتہائی اہم ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چین، جاپان، اٹلی، برطانیہ اور دیگر ممالک کی ترقیوں کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ ان ممالک میں حکومتوں کے آنے جانے سے اُن کی معاشی پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں جب پاکستان میں چین کے سفیر یائو جنگ فیڈریشن ہائوس کراچی تشریف لائے تو میں نے اُن سے چین کی ترقی کا راز پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’چین کی ترقی کا راز معاشی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔‘‘ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں حکومت مخالف جماعتیں سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی اپناتی ہیں اور برسراقتدار جماعت پر بدعنوانی، اقرباپروری، کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات لگاکر پوائنٹ اسکورنگ کرتی ہیں، بلاجواز احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں تاکہ حکومت کو کمزور کرکے ملکی ترقی کو روکا جاسکے۔ مخالفین کے ان ہتھکنڈوں کے باعث ترقی کی جانب گامزن پاکستان کی معیشت تنزلی کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے اور نتیجتاً ملک کی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ پاکستان کی یہ بدنصیبی بھی رہی ہے کہ ماضی میں سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی اور الزامات کو بنیاد بناکر تیسری طاقت اقتدار پر قابض ہوتی چلی آئی ہے، یہی وجہ ہے کہ آزادی کے 70 سالوں کے دوران نصف سے زائد عرصہ حکومت کی باگ ڈور آمروں کے ہاتھوں میں رہی اور ملک وہ ترقی نہ کرسکا جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ آج سیاستدان پاکستان کی بدحالی کا ذمہ دار ڈکٹیٹرز جبکہ ڈکٹیٹرز سیاستدانوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) نے میاں نواز شریف کی قیادت میں اقتدار سنبھالا تو پاکستان کو توانائی اور سیکورٹی کے سنگین چیلنجز کا سامنا تھا، پاور سیکٹر میں اربوں روپے کے گردشی قرضے حکومت پر واجب الادا تھے، بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 14 گھنٹے تک جاپہنچا تھا، زرمبادلہ کے ذخائر اور جی ڈی پی کی شرح کم ترین سطح پر آگئی تھی اور آئی ایم ایف نے مزید قرضے دینے سے انکار کردیا تھا جس کے باعث عالمی سطح پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کی جارہی تھی، اسی طرح ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی عروج پر تھی جس کے باعث امن و امان کی صورتحال انتہائی بدتر تھی لیکن نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ملکی معیشت اور سیکورٹی صورتحال بہتر بنانے پر توجہ دی، توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے جامع منصوبہ بندی کی گئی اور آئی پی پیز کو 503 ارب روپے کے واجبات ادا کئے گئے، 4 سالوں میں 7,000 میگاواٹ سے زائد بجلی سسٹم میں شامل کی گئی جس سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا اور گھریلو و صنعتی صارفین کو بلاتعطل بجلی کی فراہمی ممکن ہوئی، انفراسٹرکچر کا انقلاب آیا، ملک میں سڑکوں کا جال بچھا اور سی پیک منصوبے تیزی سے تکمیل کے مراحل میں داخل ہوگئے۔ اسی طرح دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے ’’ضرب عضب‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ کا آغاز کیا گیا جس کیلئے سیکورٹی فورسز کو ہنگامی بنیادوں پر 230 ارب روپے جاری کئے گئے نتیجتاً ملک میں دہشت گردی و انتہا پسندی آخری سانسیں لینے لگی اور پاکستان بالخصوص کراچی میں لوگ امن و امان کی بہتر صورتحال کے باعث بلاخوف و خطر زندگی گزارنے لگے، جی ڈی پی 9 سالوں میں پہلی بار بڑھ کر 6 فیصد تک پہنچ گئی، افراط زر 4 فیصد کی ریکارڈ سطح پر آگئی، زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر کی حد عبور کرگئے، ٹیکس ریونیو کی وصولی جو گزشتہ دور حکومت میں 2 ہزار ارب روپے تھی، دگنی ہوکر 4 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئی، لوڈشیڈنگ کے خاتمے، امن و امان کی بہتر صورتحال اور انفراسٹرکچر منصوبوں کی تکمیل کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئی، غیر ملکی میڈیا نے بھی اعتراف کیا کہ پاکستان میں متوسط طبقہ تیزی سے ابھررہا ہے اور تیز معاشی گروتھ کی بدولت 2025ء تک پاکستان دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا مگر حکومت مخالفین اور نادیدہ قوتوں کو ترقی کرتا ہوا پاکستان ایک آنکھ نہ بھایا اور یہ تاثر دیا کہ یہ سب کچھ بیرونی قرضوں میں اضافے کا نتیجہ ہے حالانکہ حکومت نے گزشتہ 4 سالوں کے دوران 17 ارب ڈالر کے نئے قرضے لئے اور 10 ارب ڈالر کے پرانے قرضے واپس بھی کئے۔ مخالفین نے سوچا کہ اگر 2018ء کے عام انتخابات تک (ن) لیگ کے شروع کئے گئے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ گئے اور ملک بحرانی صورتحال سے نکل گیا تو مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان اس قدر مستحکم ہوجائے گا کہ اُنہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہے گا اور پھر (ن) لیگ کو دوبارہ برسراقتدار آنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکے گی چنانچہ مخالفین نے حکومتی کاموں میں رخنہ ڈالنے کی حکمت عملی اپنائی تاکہ ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں، اس طرح پانامہ کیس کی آڑ میں دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور منتخب جمہوری وزیراعظم کو اقامہ کے نام پر گھر بھیج دیا گیا۔ نتیجتاً پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی اور تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت تنزلی کا شکار ہوتی چلی گئی، اسٹاک مارکیٹ جو 53,000 کی حد عبور کرچکا تھا، گرکر 41,000 کی نچلی سطح پر آگیا جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ملک میں دھرنوں کی سیاست نیا رُخ اختیار کرگئی، سیاسی جماعتوں نے حکومت پر دبائو ڈالنے اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے چند ہزار حامیوں کے ذریعے پاکستان کے اہم شہروں کو بلاک کرنے کی روش اپنائی اور حکمرانوں سے مستعفی ہونے کے مطالبات کئے جانے لگے۔ ان حالات میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو یہ بیان دینا پڑا کہ نواز شریف کی برطرفی سے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہورہا ہے جس سے ملکی معیشت کا متاثر ہونا فطری عمل ہے۔
اسلام آباد دھرنے کے بعد لاہور دھرنا اور حال ہی میں کچھ مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا مقصد بھی ملک میں جاری ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالنا ہے تاکہ ملکی مفاد کے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں۔ مفاد پرست سیاستدانوں اور نادیدہ قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح سینیٹ کے انتخابات سے قبل موجودہ حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے، چاہے اس کیلئے جمہوریت کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ اگر حکومت مخالف قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں تو اُنہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کل اُن کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سعد رفیق پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ ’’ہم اتنے سیدھے بھی نہیں کہ حکومت گرانے والوں کو بخش دیں گے۔ ‘‘
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو دو مرتبہ اقتدار چھن جانے کے بعد یہ بات سمجھ آگئی کہ انہیں اُن تمام معاملات پر باہمی اتفاق کرلینا چاہئے جن پر نااتفاقی کی وجہ سے ماضی میں تیسری قوت نے فائدہ اٹھایا جس کے بعد دونوں جماعتوں نے لندن میں ’’میثاق جمہوریت‘‘ معاہدے پر دستخط کئے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی طرز پر ’’میثاق معیشت‘‘ تشکیل دیں تاکہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے۔ سیاستدانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت متاثر ہوتی ہے جس کا نقصان کسی شخصیت کو نہیں بلکہ پاکستان کو پہنچتا ہے۔ عوام بھی ایسی مفاد پرست سیاسی و مذہبی جماعتوں کا ساتھ نہ دیں جو اقتدار کی خاطر غیر جمہوری طریقے اپنائیں اور ملکی معیشت و استحکام کو غیر مستحکم کرکے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوں کیونکہ ایسے سیاستدان ،عوام اور پاکستان کے خیر خواہ ہرگز نہیں ہوسکتے۔

تازہ ترین