• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ فیض آباد چوک میں ریاست کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا یا اس کا اتنا تمسخر اڑایا گیا کہ وہ دنیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی۔ جس طرح سے ایک مسلکی گروہ کے چند ہزار لوگوں کے سامنے ریاست نے سرنڈر کیا اس سے تو یہی لگا کہ سوائے عدلیہ کے ملک کے تمام ادارے نہ صرف معطل ہو چکے ہیں بلکہ المیہ ہے کہ کسی کو یہ احساس نہیں رہا کہ ریاست کی رٹ ختم ہو رہی ہے۔ لیکن یہی خوش فہمی تاریخ میں ہر مٹتی ہوئی ریاست کے حکمرانوں کو رہی ہے۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی موت کے بعد ڈیڑھ سوسال تک مغلیہ سلطنت کے چلانے والے یہی سمجھتے تھے کہ ان کی بھاری بھر کم فوجوں کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا لیکن وہ وقت بھی آیا جب پنجاب میں چند ہزار سکھوں نے قبضہ کر لیا۔کیا پاکستان کی ریاست کا مستقبل یہ ہے کہ مسلکی بنیادوں پر اٹھنے والی شورشیں ریاست کے رہے سہے نظام کو ملیا میٹ کردیں گی یامختلف ادارے شعوری کوششوں سے اس کو محفوظ کر لیں گے؟
اسلام آباد میں جو بھی ہوا اس کی ریہرسل کئی دہائیوں سے ہو رہی تھی۔ لیکن جس طرح سے ریاست کے سیکورٹی اداروں بالخصوص پولیس کی بے توقیری کی گئی اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ نہ صرف یہ کہ پولیس ہجوم کو قابو کرنے میں ناکام رہی بلکہ یہ بھی ہوا کہ دھرنا دینے والوں نے پولیس کو چن چن کر ان پر تشدد کیا۔ پولیس ہی نہیں عدالت عالیہ کے حکم کو بھی در خور اعتنا نہ سمجھا گیا اور اسے بر سر عام مطعون کیا گیا۔ اس صورت حال میں نہ صرف سیاسی ادارے ناکام ہوئے بلکہ ریاست کے طاقتور ترین اداروں نے بھی یہ نہ سوچا کہ ریاست کی رٹ ختم ہونے کےکیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مختلف سیاسی پارٹیاں موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا اپنا ووٹ بینک بچانے یا بڑھانے کی کوششیں کرتی رہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بریلوی ووٹ کے کھو جانے سے خوفزدہ ہو گئی اور باقی پارٹیاں حکمران جماعت کو فارغ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہو گئیں۔
پاکستان میں جدید ریاست کے نظریے کی کبھی بھی قابل قدر تدوین نہ ہو سکی۔ جب پاکستان وجود میں آیا تو یہ ایک زرعی ملک تھا جس میں عملاً جاگیرداروں اور زمینداروں کی حکومت تھی۔ یہ حکمران طبقات فکری اعتبار سے پس ماندہ تھے اور ان کی دلچسپی اپنی جاگیروں اور مخصوص علاقوں تک محدود تھی۔ جدید ریاست کی بنیاد شہری اشرافیہ ہوتی ہے جو کہ تقسیم سے پہلے ہندوئوں اور دوسرے غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔ اس شہری اشرافیہ کے ہندوستان ہجرت کرنے کے بعد پاکستان میں وہ تعلیم یافتہ اشرافیہ تھی ہی نہیںجو ریاست کے عصری تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس خلا کو فوج اور پولیس نے پر کیالیکن ان عسکری حکمرانوں کے پاس بھی جدید ریاست کا کوئی نظریہ نہیں تھا۔ چنا نچہ مذہب کو ہی ریاستی نظریے کے طور پر اپنایا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مختصر مدت کے لئے ایک نئے نظریے کے تحت نئی ریاست کی بنیاد رکھنا چاہی لیکن وہ اس میں ناکام ہو گئے اور آخر کار مذہب کے بنیاد پرست نظریے کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد ضیاالحق کی اسلامائزیشن کی اپنی داستان ہے جس کے بارے سبھی جانتے ہیں۔ لیکن ستر کی دہائی تک عوامی سطح پر ایک مخصوص طرز کا توازن قائم تھا جس میں پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں کا دبدبہ موجود تھا۔ اسی کی دہائی میں اور اس کے بعد طوفانی قسم کی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے پرانا توازن ختم ہو گیا: زرعی نظام پیداوار کی جگہ تجارتی اور صنعتی معاشرے نے لے لی جس سے ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی جس میں ایک نئی طرز کی جدید ریاست کی ضرورت تھی جس کی تعمیر ممکن نہ ہو سکی اور ریاست کا وجود برائے نام رہ گیا۔
اسی کی دہائی کے بعد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بھی ریاستی اداروں کا زوال شروع ہو گیا۔ نئے تجارتی اور صنعتی انقلاب نے قدیم معاشرے کو اس طرح سے مسمار کیا کہ پورے برصغیر میں فرد اور معاشرے کی پرانی شناخت گم ہو گئی اور ایک نئی طرح کی مذہبی قومیت کا تصور سامنے آگیا۔ پاکستان میں مسلکی تفرقات کی بنیاد پر فرد کی شناخت محدود تر ہوتی گئی اور ہندوستان میں ہندتوا کے فلسفے کے تحت تنگ نظر ہندوازم نے ریاست کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ ہندوستان میں کانگریس پارٹی اور جواہر لال نہرو کی قیادت میں ریاست کے مختلف ادارے کافی مضبوط تھے لیکن وہ بھی اسی کی دہائی کے بعد آنے والی طوفانی تبدیلیوں کے سامنے اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکے۔ آج کے ہندوستان میں ریاست مخصوص مذہبی نظریے کا شکار ہو چکی ہے اور اس کا مستقبل بھی مشکوک ہے۔
پاکستان کی ریاست میں ادارے پہلے ہی بہت کمزور تھے لیکن اسی کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں تو وہ اور بھی ناتواں نظر آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) تو شروع سے ہی مذہبی نظریے کو اولیت دیتی تھی لیکن پیپلز پارٹی بھی اپنے ابتدائی دور کے فلسفے سے منحرف ہو کر دوسرے مشاغل میں مصروف ہو گئی۔ اگرچہ میاں نواز شریف نے ایک موقع پر خلیفتہ المسلمین بننے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا اور ریاست کے نئے نظریے کو جذب کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس کے باوجود ان کی سیاسی موقع پرستی غالب آتی رہی اور وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کی جانے والی سازشوں کا حصہ بنتے رہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ اور دوسری جمہوری روایات کو نظر انداز کرکے سیاسی ادارے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہ جمہوری اقدار کو فروغ دینے کی بجائے شخصی حکومت کے نظریے پر عمل پیرا رہے ہیں۔
ریاست کے اداروں کی تنزلی کی ذمہ داری ساری سیاسی پارٹیوں کے علاوہ مقتدر اداروں پر بھی ہے۔ پاکستان میں دھرنوں کی سیاست ریاست کے معدوم ہونے کی علامت ہے۔ مولانا طاہر القادری کے پہلے دھرنے سے لے کر فیض آباد تک ریاست نے کہیں اپنی رٹ نہیں دکھائی اور اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی چند ہزار لوگوں کا گروہ ریاست کو بلیک میل کر سکتا ہے۔ جس طرح سے سیاسی پارٹیاں مذہبی اور مسلکی رہنماؤں کی حمایت کر رہی ہیں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری سیاسی اشرافیہ ریاست کے طویل المیعاد مفاد کے بارے میں بے بہرہ ہے۔ اگرچہ عدلیہ (اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ) نے ریاستی مفادات کے تحفظ کے لئے آواز اٹھائی لیکن اسکے احکامات پر عمل نہ ہونا بھی ریاست کے زوال کی بڑی علامت بن گیا ہے۔ ریاست کے ستون گر نہیں گئے تو لرزاں ضرور ہیں اور ان حالات میں بہتری لانے والا کوئی نظر بھی نہیں آرہا۔

تازہ ترین