• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ہاں! امریکہ میں آباد ایک 27؍سالہ بنگلہ دیشی عقائد اللہ نامی نوجوان کو نیویارک کے مشہور مصروف علاقے ’’پورٹ اتھارٹی‘‘ سے ایک بم دھماکے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا۔ حکام نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے ایک گھریلو ساخت کا پائپ بم اپنے جسم پر نصب کر رکھا تھا جو اچانک پھٹ گیا اور وہ خود بھی اس سے زخمی ہوا اور قریب سے گزرنے والے 3؍افراد بھی زخمی ہوئے کسی کی جان خطرے میں نہیں۔ میں سالہا سال سے پورٹ اتھارٹی اور ٹائمز اسکوائر کی راہداریوں سے واقف اور گزرتا چلا آرہا ہوں۔ اس علاقے میں ہر روز کئی لاکھ افراد کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ نیویارک کے باہر سے آنے اور جانے والے افراد کا بڑا مجمع اپنے روزگار کے سلسلے میں روزانہ آتا جاتا ہے پھر یہ پورٹ اتھارٹی اور ٹائمز اسکوائر کا علاقہ نیویارک کے سب وے سسٹم سے بھی جڑا ہوا ہے۔ چند دنوں میں امریکہ میں نئے سال کی عوامی تقریب میں عالمی شہرت یافتہ اجتماع بھی چند قدم کے فاصلے پر ٹائمز اسکوائر کے اسی علاقے میں ہوگا۔ جہاں 2010ء میں ایک 30؍سالہ پاکستانی نژاد فیصل شہزاد کو بھی بہت بڑے بم دھماکے کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ بروکلین نیویارک کے رہائشی 2011ء میں امیگریشن حاصل کرکے امریکہ آنے والے 27؍سالہ عقائد اللہ کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ زخمی ملزم کا کہنا ہے کہ 6؍دسمبر کو صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ کو یروشلم منتقل کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس نے اس پر ردعمل اور غم و غصہ کا اظہارکرتے ہوئے یہ تخریب کاری کی حرکت کی ہے۔ ابھی تو اس واقعہ کے محرکات اور ملزم کے بارے میں تفصیلی معلومات امریکی میڈیا کے ذریعے ہی اس لئے ملیں گی کہ امریکہ میں مسلم تنظیمیں، ادارے اور لیڈر شپ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر 16؍سال بعد بھی ماحول صورت حال اور خوف کے ہاتھوں ٹھٹھری ہوئی ہیں نیز امریکہ کے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ابھی تک عرب، افریقن، پاکستانی، بنگلہ دیشی، صومالی اور دیگر نسلی و علاقائی ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے لہٰذا کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا (اکنا) اور دیگر تنظیمیں امریکی مسلمانوں کے مفاد کے لئے جو کچھ کرسکتی ہیں قابل ستائش انداز میں وہ امریکا و کینیڈا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کے لئے کرتی ہیں۔ مگر حقائق کچھ یوں ہیں (1) امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی کل آبادی کےکوئی اعداد و شمار یوں نہیں کہ نہ تو امریکی حکومتی نظام میں مذہب کے حوالے سے کوئی عوامی سرکاری ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور نہ ہی مسلمان تنظیموںیا مسلم ممالک کے سفارتخانوں نے آپس میں رابطہ و تعاون سے کوئی اجتماعی فہرست اور اعداد و شمار تیار کئے ہیں لیکن عام اندازہ ہے کہ 40لاکھ سے لے کر 70لاکھ مسلمان وسیع و عریض 33؍کروڑ آبادی والے امریکہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کینیڈا کی کل 36ملین یعنی 3؍کروڑ 60؍لاکھ آبادی میں مسلمانوں کی کل آبادی صرف 15لاکھ اندازاً بیان کی جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس پر بھی صورت حال یہ ہے کہ ایک بڑی اکثریت امریکی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کرکے امریکی یا کینیڈین پاسپورٹ کو اپنی جیب میں سجاکر اپنے آبائی وطن بڑے اہتمام سے جاتے ہیں لیکن امریکی یا کینیڈین سیاسی نظام اور جمہوری روایات کا حصہ نہیں بنتے اور نہ ہی اپنا ووٹ رجسٹر کرواتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں پورے امریکہ میں پھیلی ہوئی صرف ایک فیصد مسلم آبادی کی خوشحالی سے امریکی سیاستداں فنڈ ریزنگ اور اپنے حلقہ انتخاب میں ذاتی تعلقات کے لئے تو رجوع کرسکتے ہیں لیکن اس سے آگے کا مرحلہ طے کرنے میں مشکل ہوتی ہے خدا بھلا کرے نیویارک کے ڈاکٹر اعجاز احمد، ٹیکساس کے طاہر جاوید، کیلیفورنیا کے ڈاکٹر آصف محمود اور ایسے ہی چند پاکستانی۔ امریکنز کا جنہوں نے اب پاکستانیوں کو متحرک کرنے اور خود آگے بڑھ کر کام کا آغاز کیا ہے امریکی فوج کے کیپٹن ہمایوں خان کی خدمات اور ان کے والد خضر خان نے آگے بڑھ کر مشکلات کی پروا کئے بغیر جرات کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں اپنے خطاب سے مسلمانوں کاجو امیج پیش کیا ہے اس پر انہیں سلام۔
لیکن اب تازہ ترین پورٹ اتھارٹی کے علاقے میں ’’پائپ بم‘‘ اپنے جسم پر باندھ کر جس انداز میں بے گناہ شہریوں کو اور خود کو زخمی کرکے نوجوان مسلم نسل اور مسلم کمیونٹی کاجو امیج پیش کیا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان صدر ٹرمپ کے 6؍دسمبر کے اعلان پر ناراض ہیں لیکن اکیسویں صدی میں احتجاج کا طریقہ تخریب کاری، دہشت گردی اور بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنا نہیں ہے۔ بلکہ منظم اور مدلل انداز میں ڈائیلاگ اور فریق مخاطب کے سامنے اپنے کردار اور عمل سے اسے قائل کرنا ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور سیرت النبیؐ سے رجوع کرلیں آپ کو تمام حقائق مل جائیں گے۔ (2) مسلم ممالک میں بعض عقائد و مسالک کے رہنما جوشیلی تقریروں کے ذریعے وہ ماحول پیدا کررہے ہیں جو خود مسلم معاشرے کی مزید تقسیم اور باہمی نفرتوں کو ہوا دینے کا کام کررہے ہیں۔ اسلام کو درپیش چیلنجز کا کوئی مدلل حل اور جواب دینے کی بجائے مسلمانوں کو ہی مزید فرقہ واریت کی جانب دھکیلنے کا کام ہورہا ہے کسی ایک مسلم ملک یا علاقہ میں شہرت اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے ایسی تقاریر، اجتماعات نے برطانیہ میں کافی اثر دکھایا۔ آج کی ٹیکنالوجی کے دور میں ان کی یہ سرگرمیاں امریکہ اور کینیڈا میں بھی رنگ دکھا رہی ہیں۔ پورے امریکہ و کینیڈا میں صرف انتہا پسند بنگلہ دیشی نوجوان عقائد اللہ نے یہ دہشت گردی کی ہے۔ صرف گھریلو ساخت کا ایک پائپ بم اپنے جسم پر باندھ کر خود کو بھی زخمی کیا ہے لیکن آپ اس حرکت کے اثرات نہ صرف امریکی وہائٹ ہائوس بلکہ دنیا بھرکے دارالحکومتوں میں تمام مسلمانوں کے لئے ندامت اور جواب دہی کا جو سامان پیدا کیا ہے اس کی لپیٹ میں نیویارک کی سڑکوں پر اعلانیہ ’’حلال فوڈ‘‘ بیچنے والے محنت کش مسلمانوں سے لے کر اسپتالوں اور یونیورسٹیوں سے وابستہ ڈاکٹرز اور اسکالرز بھی متاثر ہورہے ہیں۔ جی ہاں! بیرون ملک بسنے والے مسلمان فلسطین سے لے کر پاکستان اور انڈونیشیا اپنے اپنے آبائی ملکوں کو اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ فراہم کررہے ہیں وہ مساجد اور مدرسوں کی تعمیر، دکھی اور بیمار مسلمانوں کے لئے کلینک اور اسپتالوں کی مدد کررہے ہیں۔ امریکہ و کینیڈا آنے والے علماء کرام کی خدمت، رہائش اور عزت و توقیر کی ذمہ داری بھی ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ 40؍سال میں نیویارک کے ائیرپورٹ پر قانونی حد سے کہیں زیادہ ڈالرز لے جانے کی کوششوں کا ایک بڑا ریکارڈ موجود ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیش، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں بیٹھ کر وہاں کی مقامی ذاتی، سیاسی اور مسلکی ضروریات پوری کرتے ہوئے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر غیرمسلم ممالک میں آباد مسلمان اور ان کی نئی نسل پر رحم فرمائیں۔ ان ممالک کی مساجد میں نماز ادا کرتے وقت صف میں ہر مسلک اور عقیدہ کا مسلمان اپنے مسلک کے مطابق نماز ادا کرتا ہے کوئی کسی سے مسلک، عقیدہ، رنگ و نسل نہیں پوچھتا خدارا بیرونی غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمان اقلیتوں پر رحم فرمائیں۔

تازہ ترین