• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یروشلم کا عربی نام القدس ہے، جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدس لکھتے ہیں۔ یورپین بیت المقدس کو یروشلم پکارتے ہیں۔ ’’بیت المقدس‘‘ سے مراد وہ مبارک گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جائے۔ پہلی صدی قبل مسیح میں رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ’’ایلیا‘‘ کا نام دیا۔ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام ’’کوہ صہیون‘‘ ہے جس پر مسجد اقصٰی واقع ہے، کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک ’’صہیونیت‘‘ قائم کی گئی۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر یہیں سے معراج کے لیے تشریف لے گئے۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے مسجد اقصٰی کی بنیاد ڈالی تھی پھر عرصہ دراز کے بعد 961قبل مسیح میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے اس مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کہتے ہیں۔بیت المقدس کو 586 قبل مسیح میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا۔ بخت نصر کے بعد شہنشاہ فارس روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل والوں کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی۔ یہودی حکمران ’’ہیرود اعظم‘‘ کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر پھر سے تعمیر کر لیا۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی تھی، رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کر دیے۔137 قبل مسیح میں رومی شہنشاہ ہیڈرین نے شوریدہ سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے، تب تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ 17ہجری یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبدالملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔ فتح بیت المقدس کے بعد سلطان صلاح الدین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے عیسائیوں سے مسلمانوں کے اس قتل عام کا بدلہ نہیں لیا جو انہوں نے 1099ء میں بیت المقدس کی فتح کے بعد کیا تھا۔ بیت المقدس 583ھ بمطابق 1187ء میں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ 1948ء میں امریکہ، برطانیہ، فرانس کی مشترکہ سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور پھر1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا پھر وہ خطہ جو کبھی اسلام کے زیرِ اثر تھا جہاں کبھی مظلوموں کی داد رسی کے لئے مسلمانوں کی افواج نے قدم رکھے تھے ایک بار پھر سے مظلوم ہو گیا ہے فرق یہ ہے کہ جس قوم نے ظالموں کو اس پاک خطے سے نکالا تھا آج وہی قوم وہاں مظلوم بن کر پھر کسی سلطان صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی ہے۔ مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور دُنیا بھر کے اسلامی ممالک اور اُن کے سربراہان چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اسی ظلم و تشدد اور دل آزاری کی کڑی کا ایک جنونی کردار امریکی صدر ’’ٹرمپ‘‘ ہےجو کوئی بھی فیصلہ سوچے سمجھے بغیر کردیتا ہے، امریکی لوگ اسے پاگل قرار دیتے ہیں، اس کے رویوں اور فیصلوں سے امریکی ادارے اور وہاں کی عدلیہ تک ناپسندیدگی کا اظہار کر چکی ہے، امریکہ و یورپ کے لوگ ٹرمپ کے انتہا پسندانہ رویے کو سخت ناپسند کرتے ہیں،مگر ٹرمپ کے فیصلوں کو روک نہیں سکتے امریکی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ امریکی سیاست میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے اِس کی زندہ مثال سی آئی اے اور دوسرے امریکی و اسرائیلی اداروں کی مشاورت ہے جس کی بنیاد پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا گیا،اور امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس فیصلے کی منصوبہ بندی ایک دن میں نہیں بلکہ کئی برسوں میںمکمل کی گئی ہے امریکہ نے اس منصوبہ بندی کے نتائج دکھانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ اُس نے اسلامی دُنیا کی موجودہ بے حسی کو دیکھتے ہوئے شرمندہ تعبیر کر دکھایا ۔ ترکی کے طیب اردوان کے علاوہ اسلامی دُنیا کے حکمران اِس امریکی حکم نامے پر مکمل خاموش ہیں؟ دنیا بھر کے بیشتر ممالک کے عوام ہی سراپاء احتجاج بنے لیکن سیاستدانوں کے کان پرجوں تک نہیں رینگی، حسبِ روایت پاکستان کی افواج نے جرات سے کام لیا اور اس امریکی ناپاک عمل کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان نے کہا کہ ہم نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ اب ہماری ملکی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم ڈرون مار گرائیں گے، ہم نے اپنے ملک کے ایک ایک انچ کے تحفظ کا تہیہ کیا ہوا ہے ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی بھارتی اور ایرانی ڈرون نے کی، جو ہم نے گرا دئیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی پر اپنی مرضی کی جمہوریت مسلط نہیں کی جاسکتی، جمہوریت کے نام پر عراق اور لیبیا میں جو ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں، جمہوریت کسی ایک ملک کا حل نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ رول ماڈل لیڈر ان میں،کڑے وقت کا سامنا کرتے وقت بڑے فیصلے کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ بہر حال امریکی صدر کے اس موجودہ بیان کا اگر محاسبہ نہ کیا گیا تو کسی بھی اسلامی ملک پر مصیبت آسکتی ہے۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان حکمران خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120کا جائزہ لیں ،جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ’’اور تم سے ہر گز راضی نہیں ہوں گے یہود ونصاریٰ یہاں تک کہ آپ پیروی نہ کریں ان کی ملت کی‘‘۔ اب مسلمانوں کی طرف سے لچک دکھانے کا وقت ختم ہو گیا، اب وقت کچھ کر دکھانے اور یکجا ہونے کا ہے،وقت ہے کہ یہود و نصاریٰ کے منظم منصوبوں کو سمجھا جائے اور اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھاما جائے، ورنہ مسلمان اِسی طرح فلسطین، برما اور کشمیرمیں ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے اور اپنی خودمختاری کو تسلیم کرانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے رہیں گے۔

تازہ ترین