• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے سامنے جاپان میں مقیم میرا سینئر پاکستانی دوست بیٹھا ٹی وی دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا ، میں نے ٹی وی پر دھیان دیا تو ایک پاکستانی چینل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں بتایا جارہا تھاکہ کراچی کو تمام چائنا کٹنگ پلاٹوں سے پاک کیاجائے، غیر قانونی قبضوں کو ختم کرایا جائے، میرے ساتھ بیٹھے دوست کے ہاتھ میں ایک فائل بھی تھی یہ فائل کراچی کے علاقے گلستان جوہر بلاک دس میں اس کے چار سو گز کے پلاٹ کی تھی جو ا س نے اپنی تین بیٹیوں کی شادی کے لئے خرید رکھا تھا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اس پر قبضہ ہوچکا تھا، صرف اس ایک ہی پلاٹ پرنہیں بلکہ گلستان جوہر بلاک دس کے آدھے پلاٹوں پر قبضہ ہے۔ کے ڈی اے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت تمام ادارے اس سے آگاہ بھی ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا کیونکہ قبضہ بھی ان کی ہی ملی بھگت سے ہوا ہوگا، کراچی سے تعلق رکھنے والا میرا دوست اکثر مجھ سے اپنے اس پلاٹ کا ذکر کرتا رہا ہے جس پر قبضہ گروپ نے قبضہ کر رکھا ہے اور سرکاری سرپرستی میں چار سو گز کے اس پلاٹ پر باہر سے آئے ہوئے چار خاندانوں کو سو سو گز میں تقسیم کر کے فروخت کردیا ہے، اب جب اس علاقے میں پلاٹوں کی قیمت کروڑوں میں ہوچکی ہے تو یہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے سرکاری سرپرستی میں قبضہ کروادیا گیا ہے، جاپان میں مقیم میرے اس مظلوم دوست سمیت سینکڑوں پاکستانی کراچی میں اپنی جائیداد پر قبضہ ختم کرانے کے لئے دربدر بھٹک رہے ہیں لیکن کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں تھا لیکن جو کام سندھ کی حکومت نہیں کرسکی، جو کام کراچی کا نمائندہ ہونے کی دعویدار سیاسی جماعت نہیں کرسکی، وہ کام سپریم کورٹ نے کردیا ہے، سپریم کورٹ نے کراچی سے ناجائز قابضین اور چائنا کٹنگ کو واگزار کرانے کے احکامات جاری کردیئے ہیں، کراچی کے پینتیس ہزار پلاٹوں، پارکوں اور تعلیمی مقاصد کی زمینوں کو چائنا کٹنگ کرکے ناجائز فروخت کردیا گیا اور خوبصورت کراچی کو ایک بے ہنگم شہر میں تبدیل کردیا گیا تھا، جہاں کسی کو شکایت کرنے کی اجازت بھی نہ تھی، زباں بندی کے ساتھ ظلم سہنے کے لئے کراچی کے عوام کو بے سہارا چھوڑدیا گیا تھا، لیکن اب سپریم کورٹ نے کراچی کے عوام کو اپنے فیصلے سے احساس دلادیا ہے کہ وہ یتیم نہیں ہیں ان کی سننے والا بھی کوئی ہے۔ سلام ہے سپریم کورٹ کے جج جسٹس گلزار احمد اور ان کے ساتھ شامل ججز پر جنھوں نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹر ی میں کراچی میں چائنا کٹنگ مافیا کے خلاف کیس سنا اور اسی دوران یہ حیران کن انکشاف سامنے آیا کہ کراچی میں پینتیس ہزار سے زائد پلاٹوں کو چائنا کٹنگ کے ذریعے بیچا گیا لوگوں کے جائز پلاٹوں پر قبضہ کر کے انھیں فروخت کیا گیا اور حکومت اور سرکاری ادارے جو اس غیر قانونی عمل کو روکنے کے ذمہ دار تھے وہ خود اس جرم میں شریک رہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ سن کر مجھے اپنے مرحوم استاد کی بہت یاد آرہی تھی جو ہم جیسے شاگردوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کی نصیحت کیا کرتے اور آخر میں اپنے گھر کو انتہائی محبت سے دیکھ کر کہا کرتے کہ دیکھو ایک عام آدمی کی زندگی کی سب سے بڑی کمائی یہ ایک گھر ہی ہوتا ہے جو ساٹھ سال تک محنت کرنے کے بعد ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، لہٰذا یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ ہر انسان چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں مقیم ہو اس کے لئے اس کا ذاتی گھر چاہے وہ ساٹھ گز کا ہو یا دو ہزار گز کا اس کی زندگی کا اثاثہ ہوتا ہے اور آپ خود اندازہ لگالیں کہ اگر اس گھر پر قبضہ ہوجائے تو اسے کتنی ذہنی اور جذباتی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہوگا۔ اب سپریم کورٹ نے ان پینتیس ہزار غریب اور مظلوم افراد کی آواز سنی اور حکومت اور اداروں کو پابند کیا کہ ان کی زمینوں پر قبضہ ختم کرایا جائے، اور جو زمینیں تعلیم اور دیگر مقاصد کے لئے سستے داموں دی گئیں انھیں شادی ہالز اور دیگر کاروباری مقاصد کے استعمال سے روکا جائے، سپریم کورٹ کو اس کیس پر نظر رکھنی ہوگی کیونکہ جو شادی ہالز ان اداروں کو رشوت دے کر تعمیر کرائے گئے تھے ان ہی اداروں نے ان شادی ہالز کو توڑنا شروع کردیا ہے جبکہ لوگوں کی زمینوں پر موجود قابضین سے پلاٹوں پر قبضہ ختم کرانے پر تاحال کام شروع نہیں کیا گیا ہے جو سب سے اہم کام ہے، لہٰذا یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی آڑ میں سرکاری اداروں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے اقدامات تو شروع نہیں کردیئے ہیں؟ جبکہ خالی زمینوں پر بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے گوٹھ اور کچی آبادی کی آڑ میں قبضے کرائے جارہے ہیں اگر سپریم کورٹ سرکاری اداروں کو حکم دے تو ایسے قبضہ گروپوں کو شروع میں ہی روکا جاسکتا ہے ورنہ مستقبل میں ایک اور چائنا کٹنگ کا ایشو پیدا ہوسکتا ہے، بہرحال کئی سالوں سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے وہ تمام پنجاب میں ہی ہیں ماضی میں جب بھی اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل پر آواز اٹھائی تو پہلے اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کے چیئرمین بیرسٹر امجد ملک سے رابطہ ہوا جنھوں نے ہزاروں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل اور ان کے حل کے لئے کی جانیوالی کوششوں کا ذکر کیا، اتفاق یہ تھا کہ اکثر شکایت کنندہ کا تعلق پنجاب سے تھا جن کے حل کے لئے شہبا ز شریف کی حکومت نے پنجاب میں او پی ایف سے تعاون بھی خوب کیا جبکہ وفاقی حکومت بھی ن لیگ کی ہی تھی، جبکہ میاں شہباز شریف نے اوورسیز کمیشن پنجاب کی بھی بنیاد رکھی لیکن افسوس یہ رہا کہ سندھ کی جانب کسی نے دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی، سندھ کے بھی لاکھوں افراد بیرون ملک مقیم ہیں ان کو بھی کراچی سمیت دیگر شہروں میں انہی مسائل کا سامنا ہے جو پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ہے لیکن سندھ کی حکومت ہمیشہ کی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے لاتعلق ہی نظر آتی رہی، باوجود اس کے کہ اس وقت اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت ن لیگ نے اپنی اتحادی جماعت فنکشنل لیگ کے رہنما پیر سید صدر الدین شاہ راشدی کو دے رکھی ہے جو بقول بیرسٹرا مجد ملک کے بہت احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں لہٰذا بطور وفاقی وزیر پیر سید صدرالدین شاہ راشدی کو سندھ کے لئے بھی اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے نمائندہ مقرر کرنا چاہیے تاکہ سندھ میں درپیش بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کو حل کیا جاسکے ،بصورت دیگر عوام کا سیاسی عمل سے اعتماد اٹھ جائے گا اور پاکستانی اپنے مسائل کے حل کے لئے عدلیہ کی جانب ہی دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔

تازہ ترین