• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کہانی نما کہاوت اب سندھ کے حلقوں میں تقریباً ادبی قصہ بنی ہوئی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ سندھ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں کلاس لیتے ہوئے کل کی استاد مہتاب چنہ یا آج کی مہتاب اکبر راشدی نے جب اپنے ایک شاگرد اور کامریڈ طالب علم لیڈر سے ’’دی گرل از انڈر اسٹینڈنگ‘‘ کا انگریزی سے سندھی ترجمہ پوچھا تھا تو کامریڈ طالب علم رہنما نے جواب میں کہا تھا میڈم اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ ’’لڑکی نیچے کھڑی ہے۔‘‘ اس پر کئی دنوں بعد ہمارے دوست اور لکھاری نصیر مرزا نے خود مہتاب راشدی کےمتعلق لکھا تھا کہ ’’لڑکی اوپر کھڑی ہے‘‘ لڑکی کبھی نیچے نہیں ہوتی۔
مجھے یہ حکایت و کہاوت تب یاد آئیں جب نیویارک کے وسطی مین ہٹن میں اقوام متحدہ کی عمارات میں سے ایک کی انچاسویں منزل پر واقع اٹلی کے مستقل سفارتی مشن سے نیچے کی طرف آتی ہوئی لفٹ بمشکل چند سیکنڈ سینتالیسویں منزل پر رکی لفٹ کے دروازے کھلنے بند ہونے کے توقف اور اس دوران سینتالیسویں منزل پر سے اس میں لوگوں کے چڑھنے والے توقف کے دوران میں نےآنکھ جھپک میں ہالوے کی دیوار پر پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کی بڑے فریم والی تصویر آویزاں دیکھی۔ تو میں نے سوچا’’ہماری لڑکی واقعی اور ہر وقت اوپر کھڑی ہے۔‘‘
اس وقت ایک اور لڑکی بھی اوپر کھڑی نظر آئی ،جسکے بارے میں اطالوی مشن میں انسانی حقوق کی خاتون نمائندہ کو سندھ اور ملک کی اس لڑکی ہماری سہائی ابڑو کے انکے (اطالویوں) کے ملک میں سارے شو لوٹنے کا بتا رہا تھا جو آجکل اپنی فلم ’’مائی پیور لینڈ‘‘ (میرا خالص وطن یا میری ارض پاک) میں مرکزی کردار میں اپنی پرفارمنس کے حوالے سے چھائی ہوئی ہے۔ سہائی میرے دوستوں اور ملک کے معروف مصور و آرٹسٹ خدا بخش ابڑو اور ادیبہ شاعرہ اور خواتین کے انسانی حقوق کیلئے لڑنے والی عورت عطیہ دائود کی باصلاحیت بیٹی ہے۔ کلاسیکل رقص، اور اداکاری میں اس پڑھی لکھی لڑکی نے اپنا لوہا ملک اور بیرون ملک منوایا ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے جب کئی سال ہوئے کہ اس چھوٹی سہائی کی (جب وہ بچی ہی تھی) کراچی میں مصوری کی ایک نمائش میں بنائی ہوئی پینٹنگز بھی لگی تھیں ۔پھر یہ لڑکی بڑی ہو گئی۔ اس نے ملک کی بے باک ایکٹوسٹ، تحریک نسواں کی بانی ۔ میں سہائی کو ’’جدید سندھ کی سمبھارا‘‘ کہتا ہوں۔ ’’سمبھارا‘‘ سمبھارا پانچ ہزار سال سے بھی زائد قدیم سندھو تہذیب یا انڈس ویلی سویلائزیشن کے اور دنیا کے پہلے بڑے شہر موہن جو ڈارو کے آثاروں سے ملی ہوئی مورتی والی رقاصہ تھی۔ سندھ میں کئی تہذیب اور فن دوست لوگوں کی بیٹیوں کے نام سمبھارا ہیں۔
تو میں جب کل نیویارک کی ایک سرد صبح مین ہٹن میں اقوام عالم کی عمارات میں سے ایک کی انچاسویں منزل پر اٹلی کے مستقل سفارتی مشن کے سینٹرلی ہیٹڈ کانفرنس روم میں اطالوی شہر میلان کی جم پل سفارتی خاتون ایلچی کو سندھ کے انسانی حقوق کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے بتا رہا تھا کہ یہ وہ سندھ ہے جسکی ایک بیٹی ابھی اور اسی دن تک اٹلی میں روم تھا کہ فلارینس یا اس خاتون کا آبائی شہر میلان وہاں دریا دریا فلم فیسٹیول کے حوالےسےدھوم مچائی ہوئی ہے۔ سرمد مسعود کی ہدایات میں یہ برطانوی فلم سندھ کے ایک گائوں کی سچی کہانی پر مبنی ہے جس میں تین لڑکیاں(ماں اور دو اسکی بیٹیاں اپنی زمین اور گھر بچانے کو مسلح گروہ کا مقابلہ کر کے اسے مات دیتی ہیں)۔
سہائی جو کہ ابھی اک اور جراتمند اوپر کھڑی لڑکی نے نازو بالمعروف وڈیری نازو (مجھے لفظ۔ وڈیری اچھا نہیں لگتا جیسے لفظ وڈیرہ اچھا نہیں لگتا) کی زندگی سے ماخوذ کہانی کا مرکزی کردار اس فلم میں ادا کیا ہے۔ نازو وڈیر ی ناموں میں اگرچہ کیا رکھا ہے واقعی سندھ کے قاضی احمد میں تمام صوبے کے لوگوں خاص طور عورتوں کیلئے غیر معمولی ہمت کا کردار ہے۔
یہ اٹلی جو کہ عظیم سے عظیم تر مصوروں، فنکاروں، اداکاروں اور میرے مالک مکان کا ملک ہے۔ ’’مجھ کو یوں در در پھرایا یار نے پھر لامکاں میں گھر بنایا یار نے‘‘ سندھ کی ایک اور اوپر کھڑی ہوئی لڑکی اور عظیم صوفی روح فنکارہ عابدہ پروین کی آواز میں یہ عارفانہ کلام مجھے یار سے کتنا دور اور کتنا قریب لے آتا ہے۔ یار کو شہ رگ کے بھی قریب۔ یار کو جا بجا پایاتو میں نے دیکھا اک فلارینس کے شہر کی ایک تصویر میں جو بے پناہ لامنتہائی مسکراہٹ گال سے گال ملائی ہوئی اسکی بیٹی سہائی سے عطیہ کے چہرے پر تھی اتنی تومہان مصور مائیکل اینجلو کو بھی اپنے شاہکار عظیم مجسمے پر نہیں ہوئی ہوگی۔ فطری بات ہے۔ مجھے لگا سہائی کو عطیہ نے پھر جنم دیا ہے۔ اور پھر سے جنم پر اسکی یہ مسکراہٹ۔ لوگو! یہ دیوانے کی بڑ نہیں۔ وہ شہر اور ملک جہاں مافیائیں بھی ہیں جہاں جیب کترے بھی ہیں۔ یہاں البرٹو موراویا بھی تھا تو جہاں اوریانا فلاسی جیسی میری ہر دم پسندیدہ صحافی بھی تھی۔ اٹلی کے ایک چھوٹے سے علاقے سے آئی ہوئی ایک اور کھڑی ہوئی لڑکی۔ 'میں ہر اس جگہ تھی جہاں جہاں بھی انسانی مقدر مصائب میں تھا اوریانا فلاسی نے کہا تھا۔ پھر وہ ویتنام تھا کہ کمبوڈیا، فلسطین کہ لبنان یا اسکا اپنا ملک اٹلی جو ریڈ بریگیڈ کے دنوں میں دہشت کا شکار تھا۔ کہ خمینی کا ایران یا بنگلہ دیش۔ کہ بھٹو کا پاکستان۔ اوریا فلاسی (یا آریانا فلاشے) ان تین عورتوں میں سے ایک عورت ہے جنہوں نے مجھے اپنی صحافتی زندگی میں ہمیشہ ’’انسپائریشن‘‘ بخشی ہے۔ انسپائریشن کا شاید ہی کسی اور زبان میں ایسا ترجمہ ہو۔ دوسری عورت تھی امریکی صحافی مارتھا گیل ہارن اور تیسری میری اپنی ایڈیٹر بلکہ ایڈیٹروں کی ایڈیٹر ’’ہماری لیڈی رضیہ بھٹی‘‘ ۔ اور یہ سب کی سب اوپر کھڑی ہوئی لڑکیاں تھیں۔ مارتھا گیل ہارن جو امریکی فکشن نگار ارنیسٹ ہیمنگوی کی سابقہ بیوی تھی۔ اگر کوئی دوسرا جنم ہے تو میں ان میں سے کوئی بھی عورت بننے کی خواہش کروں گا۔ مارتھا گیل ہارن جب جوان تھی تو پچاس ڈالر کا نوٹ اپنی کل جمع پونجی اپنی پتلون کی جیب میں ڈال کر اسپین اتری تھی جہاںدنیا بھر کے ادیب فرانکو کی فسطائیت کے خلاف لڑ رہے تھے۔ فرانکو کےاسپین سے مارتھا گیل ہارن نے فاشزم کے خلاف رپورٹنگ کی تھی۔ اور اسکے مراسلے اب بھی لافانی صحافتی و ادبی شاہکار ہیں۔ میں نے مارتھا گیل ہارن کی کتاب جرمنی کے شہر برلن میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف جنرلزم کی لائبریری میں پڑھی تھی جو اس نے نوے کی دہائی میں ارجنٹائن میں اس وقت کی فوجی آمریت کے دوران گمشدہ لوگوں اور انکی مائوں کے بارے میں لکھی تھی۔
میں اس انسانی حقوق سے وابستہ اطالوی سفارتکار خاتون سے کہہ رہا تھا۔ اگر آج اوریانا فلاسی ہوتی تو ملک اور سندھ میں گمشدہ لوگوں کے متعلق لکھتی جیسے اس نے کہا تھا وہ اس ہرجگہ تھی جہاں جہاں بھی انسان مصائب میں گھرا تھا۔ لڑکیاں اوپر کھڑی ہیں۔ اور ان میں سب سے پچھاڑے ہوئے پسماندہ اقلیتی برادری اور علاقے نبی سر (میرپور خاص ضلع ) سے تعلق رکھنے والی لڑکی پاروتی کولہی ہے جو غربت اور سہولتوں کے مکمل فقدان کے باوجود پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے محکمہ انوائرمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر پہنچی۔ شالا جگ جہان کی بچیاں سدا اوپر کھڑی ہوں۔

تازہ ترین