• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مختلف اوقات میں بننے والے قومی اتحادوں نے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملکی مفاد پہ اکٹھے ہونے والوں کا ایجنڈا ہمیشہ کسی نظام کو لپیٹنا رہا۔ بھٹو جیسے عالمی سطح کے وژنری رہنما کو بھی اسی طرح کے اتحاد نے پاکستان کی تقدیر سے جدا کر کے خود کشی کی روایت کو جنم دیا۔ اتنے سالوں میں حکمت عملی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی صرف ہر طرح کی اخلاقی اور جمہوری قدریں پسِ پشت ڈال دی گئی ہیں۔ آج اسی بھٹو کا داماد اور پاکستان پیپلز پارٹی کا سربراہ غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ نہ جانے کیوں عمران خان اور زرداری کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب اوپر سے بننے والے اتحاد عوام کی سطح پر مسترد کر دیئے جاتے ہیں۔ طاہر القادری صاحب تو اپنے کامیاب ترین دورے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ جائیں گے مگر یہ دونوں پارٹیاں عوام کو کیا منہ دکھائیں گی۔ اب لوگ اتنے بے خبر نہیں رہے کہ انہیں قول و فعل کے تضاد کا علم نہ ہو۔ میاں شہباز شریف پر انگلی اٹھانے والوں کو جواب دینا چاہئے کہ کراچی میں سینکڑوں بے گناہوں کو زندہ جلانے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ کے پی کے میں معصوم لڑکی کو ہجوم کے سامنے برہنہ کر کے اخلاقی قدروں کا جنازہ نکالنے والوں، مشال خان کو بربریت سے قتل کرنے والوں اور ملتان میں ہجوم تلے کچلے جانے والوں کے ذمہ دار کہاں ہیں؟ 21مئی کو ظلم کا مظاہرہ کر کے مکا دکھانے والا مشرف کس انصاف کی بات کر رہا ہے؟
صرف مسلم لیگ (ن) کے خلاف کئی سالوں سے التوا کے شکار کیس اچانک کروٹ بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ باقر نجفی ٹربیونل رپورٹ کئی حوالوں سے ایک منفرد دستاویز ہے۔ قانون کی ایک خاص زبان ہوتی ہے۔ ہر معاملے کو مخصوص شقوں کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے اختتامی پیراگراف میں واقعہ کے ذمے داروں کا تعین کرنے کی بجائے رپورٹ پڑھنے والے پر جو بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے، رائے قائم کرنے کی۔ اس حوالے سے یہ ایک کنفیوژڈ ڈاکومنٹ ہے کہ اگر اس کو دس لاکھ لوگ پڑھیں گے تو وہ دس لاکھ الگ الگ رائے قائم کریں گے۔ اس طرح کی توجیہہ شاعری میں تو قابل ستائش تصور کی جاتی ہے کیوں کہ یہ احساسات کی بات ہوتی ہے اور ہر فرد اپنے احساسات کے حوالے سے شعر کی تشریح اور تفہیم کرتا ہے جب کہ قانونی مسئلہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ عموماً انکوائری میں تمام چیزیں ڈسکس کی جاتی ہیں، دونوں فریقوں سے سوال و جواب ہوتے ہیں، دونوں اطراف سے پیش کئے گئے ثبوتوں کے بعد رائے قائم کی جاتی ہے لیکن یہ یکطرفہ ثبوت پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک فریق کا بیان ہے جب کہ دوسرے کا مؤقف موجود ہی نہیں کیوں کہ انہوں نے بائیکاٹ کر دیا تھا اور اس انکوائری کمیشن کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا جس کی رپورٹ پر آج وہ شادیانے بجاتے نظر آتے ہیں۔ تاہم فیصلے میں بھی لکھا گیا ہے کہ اس کی کوئی ایویڈنس ویلیو نہیں ہے اور اس کی بنیاد پر نہ کسی کو مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی فریق اسے اپنے دفاع میں پیش کر سکتا ہے کیوں کہ یہ صرف ایک انکوائری رپورٹ ہے کسی عدالت کا فیصلہ نہیں۔ پھر اس میں دو بنیادی سوالات پر بالکل توجہ نہیں دی گئی۔ پہلا یہ کہ کس نے فائرنگ کا حکم دیا اور دوسرا یہ کہ حالات اس نہج تک کس طرح پہنچے؟ ایک حلقے کا یہ کہنا ہے کہ اس کا حکم پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے دیا گیا تو اس کو عقل اس حوالے سے تسلیم نہیں کرتی کہ جو حکومت میں ہو اور جس کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہو وہ اس طرح کی غلطی کیسے کر سکتا ہے؟ اسی طرح بہت سارے مقتولین کے سر میں گولیاں لگی تھیں جب کہ پولیس امن و امان کے لئے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے سر کو نشانہ نہیں بناتی۔ کچھ شاہدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چھت پر کھڑے لوگوں نے فائرنگ کی اور پولیس کو اشتعال دلایا۔ جب پولیس کے لوگ زخمی ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے اپنے بچائو میں گولیاں چلائیں اس لئے یہ الزام درست نہیں کہ کسی گورنمنٹ افسر یا حکومتی نمائندے نے پولیس کو عوام پر گولیاں چلانے کا حکم دیا۔ ہم سب اس ماڈل ٹائون سانحے میں جان سے جانے والے لوگوں کی بات کرتے ہیں لیکن پولیس کے نوجوانوں کو بھول جاتے ہیں جن پر بے پناہ تشدد کیا گیا، مختلف شہروں میں پولیس کی گاڑیاں جلائی گئیں۔ اگر اس واقعے کو مثال بنا کر پولیس کو بے بس کر دیا گیا تو پھر کسی کی جان محفوظ نہیں رہے گی اور نہ ہی ملک میں نظم و ضبط باقی رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کے اندر نو گو ایریاز کیوں بنائے جاتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہر القادری کا ماڈل ٹائون کا ٹھکانہ کیوں کہ آبادی میں گھرا ہوا ہے اس لئے لوگوں نے بیریئر ہٹانے کی درخواست کی تھی۔ خود مجھے ایک بار اس طرف سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو کافی دیر میرا ڈرائیور پوچھ گچھ کے مراحل سے گزرتا رہا۔ وہاں رہنے والے اور ان کے گھروں میں آنے والے مہمان کس کوفت سے گزرتے ہوں گے یہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی درخواست پر ماڈل ٹائون میں ایک میٹنگ ہوئی اور اسی میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ بیریئر ہٹا دیئے جائیں تا کہ خلقِ خدا کو پریشانیوں سے نجات حاصل ہو۔ پھر بات بڑھتے بڑھتے ایسی بڑھی کہ ایک بہت بڑے سانحے کو جنم دے گئی۔ اب اس رپورٹ کو لے کر پھر سے ملک میں افراتفری کا عالم ہے۔ جب ملک میں عدالتیں موجود ہیں تو پھر سڑکوں پر فیصلے کرنے کی بجائے ان سے رجوع کیوں نہیں کیا جاتا؟ سڑکیں بند کرنے سے عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔
تاہم اس غیر فطری سیاسی اتحاد سے ایک سوال جنم لیتا دکھائی دیتا ہے کہ آصف علی زرداری اور عمران خان جو خود کو پاپولر پارٹیوں کے سربراہ کہتے ہیں انہیں اپنی جیت کا یقین کیوں نہیں اور وہ ہر صورت اقتدار حاصل کرنے کے لئے جناب طاہر القادری کی خدمات لینے اور غیر جمہوری قوتوں کے آلۂ کار بننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ نہیں؟
ملتی نہیں کہانی کوئی التفات کی
تفصیل کیا بیان ہو ان حادثات کی
ہر بار ہم کو ہم سے چرایا گیا یہاں
ہر بار راہ بر نے نئی واردات کی

تازہ ترین