• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیر پور اور بدین کے گاؤں دیہات دیکھ کر، ملتان ہوتا ہوا میں اپنے پسندیدہ شہر بہاول پور پہنچ گیا ہوں۔میں آیا تو اچھا بھلا موسم تھا ۔ میرے آتے ہی گھٹائیں بھی آگئیں، رات کو گھن گرج بھی ہوئی اوربادل ٹوٹ کے برسے۔درجہ حرارت نے بھی تان سے تان ملائی اور اس بچّے کی طرح گرا جس نے ابھی ابھی چلنا سیکھا ہو۔سردی بڑھی تولندن سے لائے ہوئے گرم کپڑے بھی ہار مان گئے اور ایک دوست نے میرے شانوں کے گرد علاقے کی وہ موٹی چادر ڈال دی جسے لوئی کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہمارے معاشرے میں رائج تھا مگر بے شمار لفظوں کی طرح تھک ہار کر چپ ہو رہا۔ بہاول پور باقی ساری دنیا کی طرح بدل رہا ہے۔ شان دار عمارتیں بن رہی ہیں،عالی شان ریسٹورنٹ اور طعام خانے تعمیر ہورہے ہیں۔ اور جو کھل گئے ہیں وہ جگمگا رہے ہیں۔اچھی وضع قطع کے لوگ کھانا بھی جی بھر کر کھا رہے ہیں اور اپنا جی بھی بہلا رہے ہیں۔اس کے علاوہ بہاول پور میں پہلی بار وہ کام ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ شہر کے چوراہوں پر ٹریفک کی ترنگی روشنیاں لگ گئی ہیں۔ اس کی ضرور ت پہلے کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی کیونکہ شہر میں اتنا زیادہ ٹریفک ہی نہ تھا۔ اب وہ بڑھا تو ساتھ ہی وہ سدا جلنے بجھنے والی روشنیوں نے بھی سر ابھارا۔ مگر کناروں کی جو گرد پھیل کر سڑکوں پر آجا تی ہے اسے پیچھے دھکیلنے کے لئے صبح سویرے جھا ڑو اب بھی دی جاتی ہے۔ سڑک کے درمیان لگے درختوں کو پانی دینے والی گاڑی اب بھی آتی ہے۔ پورے پورے علاقے اب بھی صاف ستھرے ہیں اورکہیں کوئی ایسا حاکم بیٹھا ہے جس کا حال سنا تو حیرت ہوئی۔ عید ِ قرباں کے موقع پر شہر میں قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ٹھکانے لگانے کے لئے اس نے عجب کام کیا۔ اس نے گھر گھر جاکر پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے، ربڑ کے دستانے اور بدبو مارنے والی دوائیں تقسیم کیں۔ لوگوں نے آلائشیں تھیلوں میں بند کر کے گھروں کے سامنے رکھ دیں۔ کچھ دیر بعد سرکار کی گاڑیاں انہیں اٹھا کرلے گئیں۔ اس کے بعد شہر صاف اور شہری آزادتھے کہ چاہیں تو کلیجی بھونیں اور چاہیں تو سیخ پر کباب چڑھائیں۔یہیں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی جو قربانی کے جانور کو بڑی مہارت سے گراتی ہیں اورپھر اتنی ہی چابک دستی سے اسے ذبح کرکے اس کی تکّا بوٹی کرتی ہیں۔ میراخیال تھا کہ جن خواتین کی چھپکلی دیکھ کر جان نکلتی ہے وہ بھلا جانور کا گلا کیسے کاٹ سکیں گی مگر بہاول پور نرالا شہر ہے۔ یہاں ایک قصاب کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ اس کا نام کھوتا قصائی بتایاجاتا ہے۔یہ نام سن کر ذہن میں کوئی خیال نہ لائیے گا مثال کے طور پر ’’گدھے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘۔ ہر چند کہ پنجاب میں گدھے کے گوشت کو بکرے کا گوشت بتا کر فروخت کرنے کے قصے عام ہیں لیکن کھوتے قصائی کے بار ے میں لوگ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ وہ اچھے سچے اور مستند بکرے ذبح کرتا ہے۔ لیکن بہاول پور میں ایک اور شے نے توجہ اپنی جانب کھینچی جب ایک چائے خانے پر بڑا سا بینر آویزاں دیکھا جس پر لکھا ہے ’چرسی چائے‘۔اسے دیکھ کر سب دوستوں کا اشتیاق بڑھا کہ پتہ کیا جائے کہ یہ کس قسم کی چائے ہے فیصلہ ہوا کہ سب کار میں بھرکر چلیں اور چرسی چائے پی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ کار چلانے والے کو یہ چرسی چائے نہیں پلائی جائے گی کیونکہ واپسی میں وہی کار چلا کر ہمیں گھر لائے گا۔ مگر وہاں گئے تو تین گھنٹے سے بجلی غائب تھی۔ گھپ اندھیرا تھا اور سارا کاروبارموبائل فون کی روشنی میں ہورہا تھا۔ہم نے جسے چرس کی چائے سمجھ کر پیا وہ کچھ کچھ کشمیری چائے جیسی نکلی۔واپسی پر ہم یہ دعا کرتے چلے کہ نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا ہم کو۔
کھانے پینے کے معاملے میں بہاول پور اب لاہور جیسا ہو چلا ہے۔ایک کھوکھا ایسا ہے جہاں ایک خلقت چائے پینے جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ شام کو وہاں مجمع دیکھ کر لگتا ہے کہ چائے مفت تقسیم ہورہی ہے۔ میں نے لاکھ کہا کہ چائے والے نے کچھ ملا نہ دیا ہو چائے میں۔لوگ کچھ جانتے ہوں تو بتائیں۔ مجھے اپنا کالج کا زمانہ یاد ہے جہاں گرومندر کے علاقے میں قائم ہمارے کالج سے کچھ دور ایک چھپّر والا ہوٹل تھا ۔ لڑکوں نے دو تین بار وہاں کی چائے پی لی۔ پھر تو غضب ہوگیا۔ ہر روز اسی وقت وہی چائے پینے کی خواہش زور مارنے لگی۔ یہاں تک کہ چھٹّی کے روز گھر سے جاکر وہ چائے پی۔ ہوٹل والے نے تو نہیں لیکن وہاں کے ایک گاہک نے ہمیں بتایا کہ ہوٹل کے پچھواڑے جوسوکھے پودوں کے ڈنٹھل پڑے ہیں وہ پوست کے پودے ہیںجو چائے کے پانی کے ساتھ ابالے جاتے ہیں اور جو دو چار روز میں اچھے بھلے انسان کو پوستی بنا دیتے ہیں۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ گاڑھی گاڑھی چائے ہوتی بہت مزے کی تھی۔ آئے سرور شوق سے ، پر نہ خدا کرے کہ یوں۔ اسی طرح بہاول پور میں کوئی طعام خانہ ہے جہاں پائے کھانے لوگ دور دور سے آتے ہیں ۔ ایک کھوکھے کی دال اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ ایک عالم و ہ دال کھانے آتا ہے اور کہتے ہیں کہ کھوکے والا ہر روز کئی من دال پکاتا ہے جو دن ڈھلے تک نمٹ جاتی ہے۔ دال مجھے بھی بہت پسند ہے۔ کسی کے گھر کھانے پر جاؤں اور گھر والے پوچھیں کہ کیا کھائیں گے اور میں کہوں کہ دال کھاؤں گا تو وہ سمجھتے ہیں کہ میں مذاق کر رہا ہوں پھر بھی دال تو پکاتے ہیں مگر ساتھ میں پلاؤ، قورمہ ، کباب اور کوفتے ضرور پکاتے ہیں۔کہنے کو کہتے ہیں کہ ہمارے گھر دال روٹی کھائیے مگر اس میں سراسر فریب ہوتا ہے۔ آخر بات پلاؤ او ر قورمے تک پہنچ کر دم لیتی ہے۔
اس پر یاد آیا کہ ایک بار میرا لکھنؤ جانا ہوا جہاں میں مہذب لکھنوی کی خدمت میں حاضر ہوا۔اپنی شہرہ آفاق لغت مرتّب کرچکے تھے۔ بہت ضعیف ہوچکے تھے۔ بینائی جاتی رہی تھی اورصاف نظر آتا تھا کہ ان کی تاریخی حویلی میں مفلسی گھرکر چکی ہے۔ اصرار کرنے لگے کہ کل دوپہر کاکھانا میرے ساتھ کھائیے ۔ میں نے لاکھ انکار کیا مگروہ مصر تھے کہ صرف روٹی چٹنی ہوگی۔ میں نے کہا کہ اگر یوں ہے تومیں حاضر ہو جاؤں گے۔ حاضر ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دسترخوان سجا ہے جس پر چار طرح کی روٹیاں، کئی قسم کی چٹنیوں کے ساتھ قورمہ، پلاؤ، نرگسی کوفتے،ماش کی پھریری دال، زردہ، شاہی ٹکڑے اور خدا جانے کون کون سی نعمتیں چنی ہوئی ہیں۔میں رخصت ہوکر باہر نکلا تو اہل محلہ نے بتایا کہ مہذّب صاحب نے رات کو گھر کی کوئی قیمتی شے فروخت کر کے آپ کے لئے کھانے کا یہ اہتمام کیا تھا۔
لکھنؤ والوں کی اس وضع داری نے تو ہمیں مار رکھا۔ کیسا شہر تھا۔ کیسا خاک میں ملا۔ ایسے ایسے منظر دیکھتے ہیں تو دل سے بہاول پور جیسے شہروں کے لئے دعا نکلتی ہے کہ یہ آباد رہیں، شاد رہیں اور ان کے گلی کوچوں میں کھیلتے بچّے ہمیشہ باپ کی انگلی پکڑ کے اچھل اچھل کر چلتے جائیں، چلتے جائیں اور کبھی نہ رکیں، کہیں نہ رکیں۔

تازہ ترین