• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریمنڈ ڈیوس کیس اور دیّت کی ادائیگی (چاہے سرکار کہ چاہے، فرد کے ذریعے) نے اسلامی تعلیمات کو غلط طور پر استعمال کرنے کا ایک نیا رخ کھول دیا ہے ضرورت ہے تو صرف امیر لوگوں کو جو غریبوں کی بے آسرا زندگی کو لوٹ لینے کے بعد، اس کا مداوا، اتنی بڑی رقم سے کرتے ہیں کہ جس کا تصور بھی غریب نہیں کرسکتے پھر ہوتا کیا ہے کہ وہ لوگ اس غریب کی غربت ہی نہیں، شناخت اور جس علاقے میں لوگ اُسے پہچانتے تھے، وہاں سے بھی جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور اس لئے کرتے ہیں کہ لوگ رقم بطور دیّت دینے والے اور لینے والے کو شناخت ہی نہ کرسکیں۔
مذہب کے نام پر بینکنگ، بلاسود قرض اور اب تازہ ترین فیشن دھرنا دینے کانکل آیا ہے، کبھی نرسیں، کبھی ڈاکٹر، ٹیچر اور اب تو مشیت ایزدی کہہ کر، کسی کا بھی مقدر لکھنے والے، بعض جو خود کو مذہب کا مبلغ کہتے ہیں، وہ بھی سیاسی بندوں کی طرح ہر موقع کی مناسبت سے اپنی قیمت، لگانے کے دائرہ عمل میں داخل ہوگئے ہیں۔ اب امتحان شروع ہوتا ہے، ان کا جو خود کو مساوات پر عمل پیرا سمجھتے ہیں۔ جو غلامی کے خلاف ہیں، آزادی اظہار کو بنیادی حق سمجھتے ہیں اور جن کو اپنے کسی قدم سے کوئی سودا نہیں کرنا ۔ ایک زمانہ تھا، پی پی جو کہ بھٹو صاحب کے زمانے کی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ سوشلزم، ہماری معیشت ہے۔ اب کہا جانے لگا، مساوات ہماری معیشت ہے۔ محبوب قدموں پر تو پہلے تھا، اب آپ کے اوپر کالا علم کیا گیا ہے وہ اتارنے کے لئے، جید صاحبان علم نظر آنے لگے ہیں۔ برقعے، عبایہ اور بہت سی قسمیں، حیا اور مذہب کا نام لیکر فیشن بن چکی ہیں۔ فلمی گانوں کی دھنوں پر مذہبی کلام کی سی ڈیز بازار میں فروخت ہورہی ہیں۔ شہاب صاحب اور اشفاق احمد کے زاویے اور وظیفوں کی کتابوں کے علاوہ، بابا یحییٰ کی مارکیٹ بہت تیز ہے۔
بس ایک شخص جس کی مارکیٹ میں بڑی مندی ہے۔ وہ ہے ٹرمپ پہلے تو اس نے اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج بنوائی، جس میں پاکستا ن کی فوج بھی شامل ہے۔ پھر پاکستان کے ریٹائرڈ آرمی چیف کو اس کا سربراہ بنایا۔ جب اُسے یہ اطمینان ہوگیا کہ یہ سب غلامی کے پھندے میں دوبارہ جکڑ چکے ہیں، تو اس نے بیت المقدس کو امریکی سفارت خانے کا مرکز بنانے کا اعلان کردیا۔ سب جانتے ہیں کہ 86ملکوں کے سفارت خانے، گزشتہ کئی سالوں سے تل ابیب میں ہیں اور تل ابیب ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ ظاہر ہے کہ شرارت جیسی یہ شرارت اور جانتے ہوئے کہ او آئی سی میں تو جان ہی نہیں ہے۔ ہمارے افتخار عارف، ساڑھے تین سال تک او آئی سی میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ پاکستان، پاکستانی ادب اور اس کے فروغ کے لئے، چاہنے کے باوجود، کچھ بھی نہ کرسکے، ادیبوں کا ایک وفد بھی بلانے کے لئے، وہ جب سفارش کرتے تو کہہ دیا جاتا ’’فنڈز نہیں ہیں‘‘۔
ٹرمپ کے اس اعلان سے کیا ہوگا، ہر جمعے کو فیض آباد جیسے جلوس اور دھرنے ہونگے۔ سعودی عرب بولے گا نہیں، بس بے چارے فلسطینی، باہر نکل کر ایک دفعہ پھرمار کھائینگے۔ ان تمام باتوں سے بڑھ کر مشرق وسطیٰ کی بے چینی کو بھی امریکہ اپنے فائدے کے لئے ہر ممکن طریقے پر استعمال کرگیا کہ اس وقت یمنی لوگوں کی ابتر حالت کے پیش نظر، بین الاقوامی اداروں کی بھیجی جانے والی امداد کو بھی خلیجی اور مشترکہ فوجیں روک رہی ہیں۔ علامہ اقبال قبر سےبار بار کہے جارہے ہیں کہ ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘‘ اور قائداعظم نے جسے مسلمانوں کی دکھتی رگ کہا تھا، وہ فلسطینیوں کی ناپائیدار حکومت کو کبھی اسرائیلی نئی بستیوں کی تعمیر کا تحفہ مل جاتا ہے اور ان لوگوں کو کشمیریوں کی طرح، گولی کی آواز خاموش کردیتی ہے۔
فلسطینیوں کو تو غریب کا مال سمجھا ہوا ہے۔ اسرائیلی شاعر بھی حکومتی اقدامات کے خلاف بولتے رہے اور سزائیں وہ بھی کاٹتے رہے، مگر اب تو بھس میں چنگاری ڈالینگے تو وہی مشرق وسطیٰ کے اُجڑے ہوئے لوگ اور بھی نا پائیدار معیشت اور انتہا پسندوں کی نامعقول حرکتوں کو اور بڑھاوا ملے گا۔ علامہ اقبال کہتے رہیں گے ’’نا سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستان والو، پاکستان کی حکومت کہے گی ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘
پاکستان کے لئے ویسے بھی زمانہ کمیشنوں کی رپورٹوں، پارٹیوں بدلنے اور ہر ایک سے پڑھوانے کا ہے کہ کلمہ پڑھ کر سنائو، ورنہ زنجیر جاں سے رہائی پائو۔
اس تمام بیانیے سے ایک نتیجہ جو کہ گزشتہ ماہ کے دھرنے سے بھی منسلک ہے وہ یہ ہے کہ اب تو انتخابی نتائج پر، صرف اور صرف سجادہ نشین اور پیر ہی جس کی حمایت کرینگے، وہی کامیاب قرار پائینگے۔ حکومت اور ان لوگوں کو یہ بھی تجربہ فیض آباد دھرنے سے حاصل ہوا ہے کہ جو خود کو لبرل، دانشور اور ایکٹوسٹ کہتے ہیں، وہ باہر نکل کر کسی قسم کا احتجاج نہیں کرینگے کہ ان کو خوش فہمی ہے کہ یہ لوگ آپس میں لڑلڑ کر فنا ہوجائیں گے۔ انڈونیشیا سے لے کر سینٹرل ایشین ممالک تک سب کے حالات ایک جیسے ہونگے۔ ہم پیچھے ہٹتے ہٹتے کہیں روہینگیا کے مسلمانوں کا درجہ حاصل کرسکیں گے۔ بس یہی وسوسہ ہے کہ ہم قومی ترقی کا سرمایہ، فوجی طاقت کو بڑھانے اور تواتر سے فیض آباد صلح نامے کئے جائینگے۔ لوگ مریخ پر زمینیں خرید رہے ہونگے اور ہم خود اپنے ہاتھ سے کھوئے ہوئے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے مرثیے لکھ رہے ہونگے یا پھر پھانسیاں تو ہماری عالمی شناخت رہی ہے۔

تازہ ترین