• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ ایشیاء جس میں ان کی اہم ترین مصروفیت چین میں موجودگی تھی کے بعد بالخصوص امریکہ اور چین اور بالعموم ساری دنیا اس کے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے ۔ چین میں امریکی صدر کا بہت پر تپاک استقبال کیا گیا ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت زبردست کلمات ادا کیے ۔ چین میں میڈیا پر سرکاری گرفت ہے۔ اس لیے چینی حکومت کے جذبات کو سمجھنے کے لیے میڈیا سے تاثرات کو باآسانی اخذکیا جا سکتا ہے ۔ چینی میڈیا کو ٹرمپ کے دورے کو ایک نئی شراکت داری کے دور سے تعبیر کر رہاتھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان تمام خوشگوار جھونکوں کے باوجود ٹرمپ کے دورہ چین میں ایسا کوئی بریک تھرو سامنے نہیں آیا جو ان دونوں بڑے ممالک میں مسابقت کی جنگ کو شراکت میں تبدیل کرے ۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے دنیا کے سب سے بڑے معاشی اور فوجی اعتبار سے طاقتور ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجودہ ہے ۔ امریکہ کے لیے اب یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس کی چودھراہٹ کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے چین سے ایسی شراکت داری قائم کرنا جس کی آڑ میں دوسرے کو اپنے زیر اثر لانا شامل نہ ہو، بہت مشکل کام ہے ۔ اس مشکل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں سیاسی ماحول بن چکا ہے ۔ جب ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں مشغول تھے تو وہ یہ نعرہ رائے دہندگان کو متوجہ کرنے کے لیے بار بار استعمال کرتے تھے کہ وہ چین کو امریکی معیشت تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ وہ ماحول تھا جس میں وہ منصب صدارت تک پہنچ گئے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ارکان کی بھی ایک قابل لحاظ تعداد نے چین کے حوالے سے معاندانہ رویہ رکھا ہوا ہے ۔ سینیٹر چک شمر جیسی قد آور شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کو چین کے مقابلے میں کاغذی شیر قرار دیتی ہے ۔ اور یہ کیفیت برقرار رہی اور انہوں نے اگر چین کے حوالے سے کوئی قلابازی کھانے کی کوشش کی تو واشنگٹن کی سیاست میں ایک بھونچال آجائے گا۔ سینیٹر جون کارنین نے سینٹ میں ایک بل، قانون سازی کے لیے پیش کیا ہوا ہے کہ جو چینی سرمایہ امریکہ معیشت میں شامل ہو رہا ہے اس کی عمومی معیار سے زیادہ سکروٹنی کی جائے ۔ کیونکہ چینی سرمایہ کاری کے پیچھے امریکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی سوچ کار فرما ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر اس وقت مزید دبائو آگیا جب ٹائم میگزین نے گزشتہ نومبر میں یہ چھاپہ کہ مقابلہ ختم ہو چکا ہے اور چین جیت گیا ہے ۔ فارن پالیسی میگزین کے سابق چیف ایڈیٹر ڈیوڈ روتھ نے ٹرمپ کے چین روانگی سے قبل ہی کہہ دیا کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور شخص سے ملاقات کی غرض سے روانہ ہو رہے ہیں ۔ ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ٹرمپ کے گزشتہ دورہ چین کے بعد یہ تصور کرنا کہ چین اور امریکہ تعلقات کے کسی نئے دور کی طرف بڑھ سکتے ہیں بہت مشکل ہو گا۔ اسی سبب سے امریکہ میں ایشیا کے معاملات کو دیکھنے اور چین کے مستقبل کے معاملات کی پیش بندی کی خاطر باقاعدہ کچھ طریقہ کار اختیار کر لیا گیا ہے ۔ یہ دوبنیادی نوعیت کی دستاویزات ہیں۔ ان دونوں دستاویزات کو امریکہ کی پالیسی میں کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ National Defence Strategy اور National Security Strategyان دونوں دستاویزات کا نام ہے۔ یہ دونوں دستاویزات ان حالات اور نتائج کا تجزیہ کرتی ہیں جو امریکہ کی سلامتی کے کسی بھی شعبے کے حوالے سے امریکہ کے لیے اہم ہیں۔ ان دونوں دستاویزات میں چین کے حوالے سے صرف ایک ہی موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چین امریکہ کے لیے موجودہ دور میں سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے اور چین کے ساتھ صرف مسابقت کا ہی معاملہ رہ گیا ہے۔ اس مسابقت کے تصور میں مساویانہ بنیاد پر شراکت داری کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ صدر ٹرمپ بھی اس صورت حال کو سمجھ رہے ہیں، اوپر اوپر سے اچھے بیانات اپنی جگہ لیکن اگر ان کی اس ٹیم کا جائزہ لیا جائے جو سیاسی بنیادوں پر انہوں نے وائٹ ہائوس ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ، محکمہ دفاعی اور قومی سلامتی کونسل میں تعینات کی ہے تو ایک تصویر بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ان تمام افراد کی تعیناتی میں قدر مشترک چین کو مقابلے میں شکست دینے کا تصور ہے ۔ یہ تمام افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ایشیاء میں چین کی بالا دستی بہت جلد قائم ہو سکتی ہے اور اس بالادستی کو روکنے کی غرض سے امریکہ ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایک متبادل طاقت یہاں پر قائم کی جانے چاہئے ، صدر ٹرمپ کے دورہ چین کی عمومی حیثیت اور عمومی نتائج نکلنے کی وجہ سے امریکہ اور چین کی مسابقت بہرحال قائم رہے گی ۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم اس کے منفی نتائج سے کیسے اپنے آپ کو دور رکھ سکتے ہیں؟

تازہ ترین