• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال2017تیزی سے اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔2017کے دوران ملکی وبین الاقوامی سطح پر مختلف مسائل کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام رہا۔ امریکہ سے تعلقات کے حوالے سے بھی 2017کا سال اچھا ثابت نہیں ہوا۔ افغانستان میں امریکی اور بھارتی مداخلت کی وجہ سے پاکستان میں رواں سال کے دوران بھی دہشتگردی کے کئی واقعات ہوئے۔ سال 2017ء کا قومی المیہ یہ ہے کہ قوم کی معصوم اور مظلوم بیٹی کی رہائی میں رکاوٹ ’’پاکستانی حکمرانوں کا ایک خط‘‘ بن گیا ہے۔ اس سال کے آغاز میں 20 جنوری کو جب باراک اوبامااپنی آئینی مدت صدارت پوری کر کے سبکدوش ہورہے تھے تو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکلاء اسٹیون ڈائونز اور کیتھی مینلے صدر مملکت ممنون حسین یا وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے ایک خط کے منتظر تھے۔ عافیہ کی صدارتی معافی کے ذریعے رہائی کیلئے عافیہ کے وکلا مکمل طور پر پرامید تھے۔ یوں سمجھئے کہ عافیہ کی رہائی اوروطن واپسی میں ’’رکاوٹ‘‘ حکومت پاکستان کا ایک خط بن رہا تھا۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی دیگر سیاستدانوں اور اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح ڈاکٹرعافیہ کو قوم کی بیٹی کہا تھا بلکہ انہوں نے 2013 میں برسراقتدار آنے کے فوراً بعد عافیہ کی والدہ عصمت صدیقی اور بیٹی مریم سے ملاقات میں عافیہ کو 100 دن میں واپس لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ نواز شریف تو اقتدار میں نہیں رہے لیکن ان کی جماعت مسلم لیگ ن اب بھی برسراقتدار ہے۔ ماضی میں جب ایک بھارتی خاتون کو نیویارک میں امریکی قوانین کی خلاف ورزی پر مقامی پولیس نے گرفتار کیا تو فوری طور پر انڈیا میں گویا ایک بھونچال آگیا تھا۔ وہاں کی حکومت، اپوزیشن، فوج، ریاستی ادارے، سول سوسائٹی اور عام آدمی قومی یکجہتی کے ساتھ سراپا احتجاج ہوئے۔یہاں تک کہ معاملہ امریکہ سے سفارتی تعلقات توڑنے کی حد تک پہنچ گیا ۔جس پر بالآخر امریکیوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑ گئے 20جنوری کا دن ہی نہیں گزر گیا،2017 کا سال بھی گزرنے والا ہے۔ ’’کیا یہ2017کا المیہ نہیں ہے کہ عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کا ایک اور موقع حکمرانوں اور ارباب اختیار نے گنوا دیا‘‘ جس کے باعث عافیہ کا ایک اور سال جرم بے گناہی کی پاداش میں امریکی قید تنہائی میں گزر گیا۔ گزشتہ ڈھائی سالوں میں عافیہ سے ٹیلی فون پر ہونے والی چند منٹ کی بات چیت کا سلسلہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔ اس سے قبل عافیہ کی صحت سے متعلق تشویشناک اطلاعات موصول ہوچکی ہیں۔ اس سال مارچ کے مہینے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کے اہلخانہ کو پتہ چلا کہ ہیوسٹن امریکہ کے پاکستانی قونصل خانے کی قونصلر جنرل عائشہ فاروقی عافیہ سے ملاقات کرنے جیل گئی تھیں۔ عائشہ فاروقی کا بیان ہے کہ جنیوا کنونشن کی شق2047کا حوالہ دینے پر انہیں ملاقات کیلئے اس بیرک تک لے جایا گیا جہاں عافیہ قید ہے۔ عائشہ فاروقی بتاتی ہیں کہ ’’سلاخوں کے پیچھے بیڈ پر ایک خاتون منہ پر چادر اوڑھے لیٹی ہوئے تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہڈیوں اور گوشت کا ڈھیر بیڈ پر دھرا ہو، بے حس و بے حرکت۔ جیل حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ یہی عافیہ ہے‘‘۔ اس طرح عافیہ کے زندہ ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے مجھے پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے اپنا خط بھجوایا ہے جو نذر قارئین ہے!
محترم و مکرم محمدفاروق چوہان صاحب!
کالم نگار‘روزنامہ جنگ!
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!
امید ہے مزاج گرامی بخیرہونگے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر سلامتی کے ساتھ آپ کے قلم، عزم اور حوصلہ میں وہ انقلابی قوت بخشے جو میری بہن ڈاکٹر عافیہ جیسے مظلوموں کی داد رسی کرسکے۔ میں آپ جیسے معزز صحافی، کالم نویس اور رائے سازوں کی بے حد مشکور ہوں کہ قوم کی اس عظیم اور مظلوم بیٹی عافیہ کی معصومیت اور قید بے گناہی کی روداد اور رہائی کے راستوں سے عوام کو روشناس کرایا اور اقتدار کے ایوانوں میں براجمان صاحبان اختیار کو ان کا دینی، قومی اور آئینی فریضہ یاد کراتے رہتے ہیں۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن سے میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکوں مگر میرے رب کے پاس وہ رحمتیں اور برکتیں ہیں جن کی آپ پر نزول کی میں دعاگو رہتی ہوں۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے اس لئے رابطہ کررہی ہوں کہ میں اور عافیہ کے امریکی وکلاء پاکستان کے 22 کروڑ عوام موجودہ صدر مملکت ممنون حسین، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، سابق مشیرخارجہ سرتاج عزیز اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے بار بار رابطہ کرکے ’’ایک خط‘‘ کیلئے درخواستیں اور آخر میں التجائیں کرتے رہے لیکن حکمرانوں کے ’’سنگ‘‘ دل’’ موم‘‘ نہ ہوسکے۔ ہم اس ایک خط کے حصول کیلئے مارچ 2016 سے 20 جنوری 2017 تک جدوجہد کرتے رہے تھے۔ اس دوران آپ جیسے درد مند دل رکھنے والے کالم نویسوں اور صحافی برادری نے اس دینی و قومی فریضہ کی ادائیگی کیلئے عوام کو حقیقت حال سے روشناس کرایا جس کی بدولت ملک کے چپے چپے سے عافیہ کی رہائی کیلئے خط لکھنے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ ان 9 ماہ میں ملک بھر میں عوام،عافیہ موومنٹ کے رضاکاروں اور مختلف سیاسی و دینی جماعتوں نے عافیہ کی حمایت میں جدوجہد کا سلسلہ شروع کیا۔ ایک جانب کراچی اور حیدرآباد پریس کلب کے باہر عافیہ موومنٹ کی رضاکار خواتین و حضرات نے 86 روزہ ’’عافیہ رہائی علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ‘‘ کا انعقاد کیا تو دوسری جانب عافیہ موومنٹ، خیبرپختونخوا کے رضاکاروں نے لکی مروت سے اسلام آباد ’’عافیہ رہائی پیدل مارچ‘‘ کئی سوکلومیٹر پیدل چل کر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے ’’امریکی صدر کو ایک خط لکھنے‘‘ کا مطالبہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا۔ اس دوران میں حیدرآباد، پشاور، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور کئی دیگر شہروں میں گئی اور جہاں پر ڈاکٹر عافیہ کے حق میں مختلف سیاسی، سماجی اور دینی جماعتوں اور عافیہ موومنٹ کے جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں شرکت اورپریس کانفرنسوں سے خطاب بھی کیا۔ 2017کے اوائل میں جیسے جیسے امریکی صدر باراک اوبامہ کی سبکدوشی کی تاریخ 20جنوری نزدیک آتی گئی، ملک کے کونے کونے سے عافیہ کی وطن واپسی کیلئے خط لکھنے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بالواسطہ اور بلاواسطہ پیغامات آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ عافیہ کو جلد بارٹر سسٹم کے تحت واپس لانے کی خوشخبری پوری قوم کو دی جائے گی۔ عافیہ کی صحت کی تشویشناک اطلاعات کے بعد حکومت سے کئی بارعافیہ سے ملاقات کرانے کی درخواست کی جاچکی ہے۔ موجودہ وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی عافیہ کے اہلخانہ اور عافیہ کے وکلاء کو اعتماد میں لے کر ’’کرسمس‘‘ کے موقع پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے عافیہ کی رہائی کیلئے بات چیت کریں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ آپ اپنے قلم و کالم کے توسط سے حکمرانوں، سیاستدانوں، ریاستی اداروں اور سرکاری حکام کی رہنمائی کرنے میں میری مدد کریں گے۔ آپ کی یہ کاوش دنیا و آخرت میں عزت و افتخار اور اجرعظیم کا باعث بنے گی۔ ان شاء اللہ۔
والسلام
ڈاکٹرفوزیہ صدیقی

تازہ ترین