• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے جاننے والے یا ملنے والے آج کل بہت سارے سوال پوچھتے ہیں کہ ملکی سیاست میں کیا ہونے والا ہے؟ حکومت رہے گی یا جارہی ہے ؟ الیکشن ہونگے یا نہیں؟عبوری حکومت بنے گی یا قومی حکومت بنائی جارہی ہے ؟ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے پبلک کی جانے والی رپورٹ کے بعد اب کیا ہونے والا ہے ؟ کوئی قصور وار ٹھہرایا جا چکاہے یا رپورٹ گول مول ہے؟ کیا ایم کیو ایم کے رابطے اب بھی لندن سے ہیں؟ کیا مصطفیٰ کمال کی پا ک سرزمین پارٹی پی ٹی آئی سے اتحاد کررہی ہے؟ جاننے والے یا ملنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ایک صحافی یا کالمسٹ کو اندر کی ساری معلومات ہوتی ہیں ۔بطور صحافی ذرائع سے کچھ باتیں معلوم ہوبھی جاتی ہیں اور کچھ ’’ہوائی فائر‘‘ ہوتے ہیں اور کچھ حالات دیکھ کر تجزیئے کئے جاتے ہیں اس لئے ملنے اور جاننے والوں کو اپنی معلومات کی روشنی میں کچھ شیئر کردیتا ہوں اور کچھ سوالات کے جواب کیلئے اپنے سینئرز یا دیگرہم عصر ساتھیوں سے معلومات اور تجزیہ لیتا رہتا ہوں، کچھ کی معلومات یا ان کی معلومات کی روشنی میں انکا تجزیہ بڑا زبردست ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اپنی خواہشات پر مبنی تجزیہ پیش کرتے ہیں یا جب ان سے سیاسی تجزیہ یا معلومات سننے کو ملیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جہا ں یہ فیصلے ہوئے ہیں یہ موصوف بہ نفس نفیس موجود تھے۔ بلکہ فیصلوں یا گفتگو کے دوران ان سے بھی مشورے لئے گئے ہیں یا معلومات رکھنے اور تجزیہ کرنے والے صاحب اس ٹیبل کے نیچے چھپ کر بیٹھے تھے جہاں پر یہ فیصلے ہوئے ، بلکہ کچھ صاحبان تو عالمی واقعات پر وہ باتیں بھی بتا دیتے ہیں جو میڈیا میں دکھائی یا شائع تو نہیں ہوتیں لیکن ان کے پاس’’ موجود ‘‘ ہو تی ہیں مثلاً امریکن صدر اور سعودی فرما نروا کے درمیان خفیہ طور پر کیا فیصلے ہوئے ہیں۔ لیکن میرے جاننے والوں میں ایک ایسے صاحب بھی موجود ہیں جن کاصحافت سے تو کوئی تعلق نہیں لیکن وہ روزانہ آٹھ دس اخبارات اس طرح پڑھتے ہیں کہ ان کو یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ فلاں اخبار کی کس خبر کا بقیہ خبر کے آخر میں دی گئی معلومات کے مطابق شائع نہیں ہو ا،بلکہ وہ کسی دوسرے صفحے پر شائع ہوگیا ہے ، اخبا ر کو اس طرح گھول کر پیتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو انہوں نے حد ہی کردی ،کہنے لگے خبر کا بقیہ تو شائع ہوگیا ہے لیکن اصل خبر شائع ہونے سے رہ گئی ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ایک خبر کسی اخبار میں ایک ہی روز دو یا تین مرتبہ شائع ہوگئی ہے ، دو تصویروں کے کیپشن بدل کر غلط تصاویر کے ساتھ پیسٹ ہوگئے ہیں، بات خالی آٹھ دس اخبارات تک محدود نہیں بلکہ انہیں تو ٹی وی چینلز کے تمام ٹاک شوز بھی ازبر ہوتے ہیں، کسی کا ٹاک شواچھا تھا کس کا اوسط درجے کا تھا اور کس کا بہت برا تھا یہ سب ان کو یاد ہوتا ہے ، کسی ٹاک شو میں کون کون مہمان تھے اور کس نے کیا کہا وہ بھی ان کی ٹپس پہ ہوتا ہے اور کون سا اینکر ایک چینل کو چھوڑ کر کس چینل میں چلا گیا ہے اس پر بھی ان کی گہری نظر ہوتی ہے ، چند روز پہلے مجھے ملے تو ڈرا ہی دیا کہنے لگے اسلام آباد میں ایک بہت بڑا فیصلہ کن دھرنا دیا جارہاہے اور یہ دھرنا پی ٹی آئی یا مذہبی جماعت سے بالکل مختلف ہوگا ۔میں نے کہا یہ دھرنا کون دے گا تو انہوںنے کہا کہ یہ ابھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن اس میں ایک جماعت یا دھڑے کی بجائے بہت ساری جماعتیں یا دھڑے شامل ہونگے اور یہ فیصلہ کن دھرنا ہوگا، یہ اب ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم ایسی مصالحے دار باتوں کو نہ صرف غور سے سنتے ہیں بلکہ انہیں سچ بھی جانتے ہیں اور ایسی باتیں کرنے والے کو مزید کریدتے ہیں کہ وہ ہمیں مزید معلومات دے بلکہ اندر کی بات بتائے حالانکہ ہوسکتا ہے کہ بات کرنے والے کی معلومات یا اطلاعات انتہائی ناقص ہوں، ان صاحب نے کہاکہ جناب جیسے تعلیمی اداروں میں موسم گرما اور موسم سرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں اب موسم دھرنا کی چھٹیاں بھی ہونگی بلکہ ہوا کرینگی۔ ان کا اعتماد اور بات کرنے کا انداز بڑا زبردست تھا۔ ان کی باتیں سن کر میں خوفزدہ ساہوگیا ،بلکہ یہ سوچنے لگا کہ اب صوبائی اور وفاقی سطح پر ایک وزارت اور وزیر یعنی وفاقی یا صوبائی وزیر دھرنا بھی ہونا چاہیے کیونکہ جس جماعت دھڑے کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے وہ ہزار دو ہزار لوگوں کو لے کر کسی بھی شاہراہ پر دھرنا دے کر اپنی بات منوالیتا ہے ۔یا اگر ان دھرنوں سے بچنا ہے تو دھرنوں اور احتجاج کیلئے قانون سازی کی جائے کہ دھرنے شاہراہوں کی بجائے جلسہ گاہوں یا میدان میں ہونگے اور جلسہ گاہوں یا میدانوں میں دھرنا دینے والو ں کا یہ احسا س ختم کر نا ہو گا کہ ان کی بات کو اہمیت نہیں دی جارہی اور وہ خود ہی تھک ہار کر واپس چلے جائیں گے، بلکہ پر امن د ھر نے وا لو ں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرکے حل نکالا جانا ضر و ری سمجھا جا ئے ورنہ ’’موسم دھرنا ‘‘آتے رہیں گے اور تعلیمی ادارے بند جبکہ نقل و حمل منقطع ہوتا رہے گا۔

تازہ ترین