• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمعرات کے روز کراچی میں تیز رفتار ڈمپر سے سات گاڑیوں کے روندے جانے، 22؍سالہ خاتون کے جاں بحق ہونے اور اس کے بھائی سمیت 11؍افراد کے زخمی ہونے کے واقعہ سے بھاری گاڑیوں سے لاحق خطرات کے سدباب کے اقدامات اور متعلقہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس نوع کے حادثات نہ صرف جانی و مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ ان کے نتیجے میں امن و امان کے مسائل پیدا ہونے کے خطرات بھی لاحق رہتے ہیں۔ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں مذکورہ حادثے کے بعد عام لوگوں نے احتجاج کیا تاہم پولیس نے ڈمپر کو مشتعل ہجوم کے ہاتھوں نذر آتش ہونے سے بچالیا۔ حادثے کے بعد بدترین ٹریفک جام کے باعث کئی علاقوں میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آئل ٹینکروں، ڈمپروں، واٹر ٹینکروں اور ٹریلروں کے حادثات کسی ایک شہر کے لئے نہیں بلکہ ملک بھر کے لئے تشویش کے باعث ہیں لیکن پچھلے مہینوں اور برسوں میں بھاری گاڑیوں کے ذریعے شہریوں کی اموات کی شرح میں جو خطرناک اضافہ ہوا اس پر وقتی بیانات اور احکامات سے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات اورکارروائیوں کے شواہد نہیں ملے۔ اس کی وجہ ہیوی ٹریفک کے معاملے میں کروڑوں روپے یومیہ کے مفادات کی موجودگی بتائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں بھاری گاڑیوں کے گزرنے کے اوقات اور سڑکوں کے تعین کے قوانین کی موجودگی اور سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اس معاملے میں چشم پوشی کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ پولیس کے سینئر افسران کے مطابق کراچی میں چلنے والی 95فیصد بھاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس یا تو ڈرائیونگ لائسنس موجود نہیں، اور اگر ہے تو جعلی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ڈرائیوروں کی اکثریت منشیات کی عادی ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ٹریفک پولیس کا عملی دائرہ کارصرف ہیلمٹ نہ پہننے اور سیٹ بیلٹ نہ باندھنے جیسے امور تک محدود نہ رکھا جائے ہیوی ٹریفک سمیت تمام متعلقہ امور پر سختی سے توجہ دی جائے۔

تازہ ترین