• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نااہلی سے بچ گئے ہیں ۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ 15دسمبر کو جو فیصلہ سنایا ہے ، وہ سیاسی مبصرین ، تجزیہ کاروں او رعوام کے بڑے حلقوں کی توقع کے عین مطابق تھا ۔ سپریم کورٹ نے اسی کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیدیا ہے ۔ جہانگیر ترین سے متعلق بھی لوگوں کو اسی فیصلے کی توقع تھی ۔ اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں پر بہت زیادہ بحث ہو چکی ہے اور اس فیصلے کے سیاسی اثرات کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں لیکن سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اب پاکستان کی سیاست عمران خان کے گرد گھومے گی ۔
اگر سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر عمران خان کو نااہل قرار دے دیتا تو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بھونچال آجاتا کیونکہ اس وقت پاکستان میں جو بھی سیاست ہو رہی ہے ، اس میں عمران خان کا بہت اہم کردار ہے ۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ان کی قیادت کو صرف عمران خان نے چیلنج کیا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف سے پہلے ملک میں بظاہر ’’ دو جماعتی ‘‘ نظام رائج تھا ۔ 1988 ء سے 1999ء تک کے سیاسی وقفہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) باری باری اقتدار میں آتی رہیں ۔ 2008ء سے جو جمہوری وقفہ ابھی تک جاری ہے ، اس میں بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک ایک دفعہ حکومت میں آچکی ہیں ۔ پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف تیسری جماعت کے طور پر مرکز میں حکومت بنانے کیلئے میدان میں موجود ہے ۔ اگر عمران خان نااہل ہو جاتے تو پاکستان کی سیاست کا پورا کھیل پلٹ جاتا اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نہ صرف پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتیں بلکہ دفاعی ( Defensive ) پوزیشن پر رہنے کی بجائے جارحانہ ( Offensive ) پوزیشن اختیار کر لیتیں کیونکہ اقتدار میں ہونے کے باوجود احتساب کے نام پر ان دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ جو کچھ ہوا ، اس کا ردعمل ضرور سامنے آتا ۔ عمران خان اس ردعمل کو روکنے کیلئے ایک ڈھال ( Shield ) ہیں ۔ ذرا تصور کیجئے کہ عمران خان نااہل ہو جاتے اور ان کی سیاست ختم ہو جاتی تو پاکستان کی سیاست کا نقشہ کیا ہوتا کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس وقت 1990 ء کے عشرے والی سیاسی جماعتیں نہیں ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کی 1990 ء کی دہائی میں وہ حیثیت اور طاقت تھی ، جو اس وقت عمران خان کے پاس ہے ۔ پیپلز پارٹی اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) کی حامی نہیں بلکہ حریف تھی اور مسلم لیگ (ن) کو اسٹیبلشمنٹ کی جماعت قرار دیتی تھی ۔ آج دونوں جماعتیں اپنے آپ کو معتوب قرار دیتی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی سوچ میں یکسانیت ہے ۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بہت گہرے پانیوں میں چلے گئے ہیں ۔ عمران خان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے سیاسی اثرات بالکل واضح ہیں ۔ اس سے تقریباً ایک عشرے سے جاری سیاسی منظرنامہ تبدیل نہیں ہوا اور سیاسی توازن نہیں بگڑا اور اب یہ جاری سیاسی کھیل اپنے منطقی انجام تک پہنچتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔
عمران خان کے حق میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت آیا ہے ، جب ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نااہل ہو چکے ہیں ۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مسلسل یہ سوال کر رہے ہیں کہ ’’ مجھے کیوں نکالا گیا ؟ ‘‘ ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کیخلاف پرانے ریفرنسز دوبارہ کھل گئے ہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں کے خلاف شکنجہ سخت کرکے خود آصف علی زرداری کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے ۔ آئندہ عام انتخابات بھی قریب ہیں ۔ اس فیصلے سے عمران خان کو نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی اور اخلاقی فتح حاصل ہوئی ہے ۔ انکے بارے میں خود پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں نے یہ تاثر پہلے سے قائم کیا ہوا ہے ۔ انہیں طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ ملک کے آئندہ وزیر اعظم ہیں ۔ عمران خان کے ایک سابق ساتھی مخدوم جاوید ہاشمی بھی بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان انہیں بتاتے تھے کہ ’’ معاملات طے ہو چکے ہیں ۔ ‘‘ اب اس طرح کا تاثر مزید مضبوط ہو گا ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بعض اہم شخصیات پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر سکتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی سندھ کے کچھ اہم رہنما سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے انتظار میں تھے ۔
عمران خان سیاسی طور پر اب بہت مضبوط ہوں گے ۔ بہت سے حلقوں کی رائے یہ ہے کہ عمران خان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور اب عدالت نے بھی انہیں کلین چٹ دیدی ہے ۔ وہ کبھی حکومتی عہدیدار بھی نہیں رہے۔ ان میں پاکستان کو بدلنے کا جذبہ ہے ۔ لہٰذا انہیں ایک بار حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہئے ۔ حالات بہت زیادہ عمران خان کے حق میں ہو گئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں مل کر عدلیہ اور فوج میں تقرریوں کے حوالے سے جو آئینی ترامیم کرنا چاہتے تھے ۔ اب انکے ارادے نہ صرف تبدیل ہو جائینگے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں اگر عمران خان نے اکثریت حاصل کر لی تو بہت بڑی آئینی تبدیلیاں متوقع ہیں ، جو پارلیمانی جمہوری نظام اور نئے صوبوں کے حوالے سے ہو سکتی ہیں ۔ اب معاملات بہت آگے تک جائینگے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے دور رس سیاسی اثرات ہیں ۔

تازہ ترین