• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

16؍ دسمبر کو جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو دل سقوطِ ڈھاکہ کی حکایت خونچکاں پہ ویسے ہی ملول ہے، جیسے 36 برس پہلے مضروب ہونے پر۔ خون کی جو ہولی کھیلی گئی، اُس کا انجام پلٹن میدان میں ہو چکا تھا۔ لیکن اگلے روز مغربی پاکستان کے تمام سنسر شدہ اخبارات میں ابھی بھی فتح کے جھنڈے بلند نظر آئے اور جب کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے اُس سے اگلے روز قوم سے خطاب بھی کیا تو جنگ جاری رکھنے اور آخری فتح تک لڑنے کا۔ مشرقی پاکستان کو صوبائی خودمختاری اور پاکستان کو اسلامی آئین 20؍ دسمبر کو دینے کا اعلان بھی۔ آج جب اُن دنوں کے اخبارات اور ریڈیو پر جنرل یحییٰ کی تقریر پھر سُنی تو عجیب بے بسی اور ڈپریشن نے آن لیا جیسے 36 برس پہلے ایسی ہی بدترین کیفیت محسوس کی تھی۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایت خونچکاں
ہر چند کہ اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
یہ بی بی سی کے مارک ٹلی تھے جنھوں نے ہمیں خبر دی کہ جنرل نیازی نے کس طرح ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ میں جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ لیکن چیف آف اسٹاف کو خبر ہوئی نہ کمانڈر انچیف کو۔ بلکہ وہ متحدہ پاکستان کی صدارت اور آئین سازی پر مصر رہے، گو کہ جنگ ہاری جا چکی تھی، ترانوے ہزار جنگی قیدی بھارت کی تحویل میں جا چکے تھے اور پاکستان کا اکثریتی صوبہ بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ ایسا ظلم، ایسا دھوکہ کبھی ہوا تھا؟ پھر بھی آج تک ہم ماننے کو تیار نہیں کہ ہم نے پاکستان کے اصل بانیوں (مسلم بنگالیوں) کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ اُن پر کیا کیا تہمتیں تھیں کہ جو نہ لگائی گئیں: غدار ہونے، ہندو یا ہندو کا ایجنٹ ہونے اور بے وقعت بھوکے بنگالی تک، کیا کیا زہر تھا جو مشرقی پاکستان کے بھائیوں کے خلاف نہیں گھولا گیا۔ آج بھی ہم اپنے مظالم، لوٹ مار، قتل و غارت گری، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم پر شرمندہ ہو کر ضمیر کی خلش دُور کرنے کو تیار نہیں اور نہ پاکستان کے دو لخت ہونے پر کوئی سبق سیکھنے پہ راضی۔ بس بھارت کا ہاتھ، مُکتی باہنی، ہندوؤں کی سازش، نجیب کی ہٹ دھرمی، بھٹو کی چالاکی اور جانے دُور کی کون کون سی کوڑیاں ہیں جو ہم لانے سے باز نہیں رہتے۔ یقیناََ، بھارت اور اندرا گاندھی نے ہماری اپنی ناکامیوں، فاش غلطیوں اور اپنے ہی لوگوں کو تہہ و تیغ کرنے کے جرائم سے خوب فائدہ اُٹھایا اور بقول اندرا گاندھی ’’دو قومی نظریہ کو بحیرۂ بنگال میں غرق کر دیا۔‘‘ حالانکہ دو قومی نظریہ تو پیدا ہی مشرقی بنگال میں ہوا تھا۔ بنگلہ دیش بھارت میں ضم ہوا نہ ہم سے پیچھے رہا بلکہ آج ہم سے کہیں آگے ہے۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ اگر اٹھارہویں ترمیم 1951ء میں ہو جاتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ نہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا نہ بار بار مارشل لالگتے۔ بنگال کی بھی عجب داستان ہے۔ پاکستان کے خیال سے بہت پہلے بنگال تقسیم اور متحد ہوا۔ یہاں تک کہ 1940ء کی قرار داد میں بھی شمال مغرب اور مشرق میں مسلم اکثریتی علاقوں کی خودمختار ریاستوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اور سہروردی کو قائداعظم نے اجازت دی تھی کہ اگر بنگال متحد رہ سکتا ہے تو کوشش کر دیکھو۔ گاندھی جی اور سہر وردی نے بنگال کے فسادات کو روکنے کے لئے اکٹھے بھوک ہڑتال کی اور بلوائیوں نے اُن پر حملے بھی کیے، لیکن وہ ڈٹے رہے۔ 14؍ اگست 1947ء کو جب بنگال کی متحدہ اسمبلی کا اجلاس اسپیکر نور الامین کی صدارت میں ہوا تو مسلم اراکین نے متحدہ بنگال اور ہندو اراکین نے تقسیمِ بنگال کے حق میں ووٹ دیا اور جب شام کو اجلاس ہوا تو اُس میں کایا پلٹ ہو گئی، مسلم اراکین نے تقسیمِ بنگال اور ہندو اراکین نے متحدہ بنگال کے حق میں رائے دی۔ یہ محمد علی جناح تھے جو آخری راقت تک وائسرائے ماؤنٹ بیٹن سے متحدہ بنگال اور متحدہ پنجاب کی مانگ کرتے رہے۔ جب یہ نہ ہوا تو قائداعظم نے جو ملا اُسے ’’کرم خوردہ‘‘ پاکستان سے تشبیہ دی۔ پاکستان بن گیا تو دارالحکومت کراچی بنا۔ 1935ء کا ایکٹ ملا، گورنر جنرل اور اُردو کا بول بالا ہوا۔ بنگالی بھائی جمہوریت، حقِ رائے دہی، صوبائی خودمختاری، مخلوط انتخابات، بنگالی زبان اور سیکولر ازم، سلامتی و اقتصادی معاملات میں منصفانہ شرکت مانگتے رہ گئے۔ جب جگتو فرنٹ نے مسلم لیگ کو شکست دے کر بے مثال کامیابی حاصل کی، اُن کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی پٹ سن تھی اور ملیں مغربی پاکستانیوں کی تھیں یا مغربی پاکستان میں۔ شرحِ مبادلہ بھی دو تھے۔ غرض یہ کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی کالونی بن گیا۔ مغربی پاکستان میں ون یونٹ اور مشرقی پاکستان کی اکثریت کو پیریٹی کی بنیاد پر اکثریت سے محروم کر دیا گیا۔ اور پھر 1956ء کے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیئے گئے۔ پھر غلام محمد سے اسکندر مرزا سے ہوتا ہوا مقتدرہ کا غلبہ جنرل ایوب خان کے مارشل لا پر منتج ہوا۔ بالواسطہ انتخابات رائج ہوئے۔ اس کے باوجود 1964ء کے صدارتی انتخابات میں مشرقی پاکستانیوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو کامیاب کروایا بھی تو دھاندلی سے جنرل ایوب خان کامیاب ٹھہرا۔ ایوب خان نے ترقی کا جو ماڈل چلایا اُس کی بنیاد علاقائی اور طبقاتی تفریق پر رکھی گئی۔ نتیجتاً مشرقی اور مغربی بازو میں تفریق بڑھ گئی۔ جس کے خلاف ملک کے دونوں حصوں میں عظیم عوامی لہر پیدا ہوئی اور ایوب آمریت کو شکست ہوئی ہی تھی کہ جنرل یحییٰ خان آن دھمکا جس نے 1962ء کے ایوبی صدارتی آئین کی چھٹی کرا دی۔ جب 1970ء کے انتخابات ہوئے تو اس میں مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کی قوم پرست عوامی لیگ دو کے سوا تمام نشستیں جیت گئی اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی عوامیت پسند پیپلز پارٹی فتح مند۔ بھٹو مجیب الرحمان سے اسمبلی کے اجلاس سے پہلے نئے آئینی ڈھانچے پہ کسی اتفاقِ رائے کے متلاشی تھے اور مجیب الرحمان اپنی اکثریت کے بل پر چھ نکات پر مصر۔ ان دونوں کے اختلاف کو (جو کہ حل ہو سکتے تھے اور کچھ آئینی اسکیمیں زیرِ غور بھی تھیں) جنرل یحییٰ خان نے استعمال کیا اور اقتدار اکثریتی جماعت کو منتقل کرنے کی بجائے فوج کشی کا راستہ اختیار کیا۔ مشرقی پاکستان میں جعلی انتخابات کروائے گئے اور جعلی مینڈیٹ حاصل کیا گیا۔ بس پھر کیا تھا پورا مشرقی پاکستان بغاوت پر آمادہ ہو گیا اور جب طاقت سے عوامی مزاحمت کو کچلنے کی کوشش کی گئی تو پھر معاملہ آزادی کی طرف چل نکلا اور یوں بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔ جو کچھ ہوا، اگر نہ ہوتا تو بھارت نے کیا سازش کرنی تھی اور وہ کیوں کامیاب ہوتی؟
اس سب کے باوجود جنرل یحییٰ خان اور اس کا ٹولہ اقتدار پر قابض رہنے پر مصر تھا۔ لیکن بھارت سے شکست نے مغربی پاکستان میں ایسا ردِّعمل پیدا کیا کہ مہم جو ٹولے کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اور یہ بھٹو تھے جنھوں نے آمرانہ قوتوں کو دھکیل کر 1973ء کی جمہوریہ کی بنیاد رکھی۔ 93 ہزار جنگی قیدی رہا کروائے اور شملہ معاہدے کے ذریعے مشکل صورتِ حال سے جان خلاصی کی۔
مشرقی پاکستان کے المیہ پر حمود الرحمان کمیشن بنایا گیا جسے آج تک پورا شائع کیا گیا نہ اُس کی معروضات پر کسی کو عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔ باوجودیکہ یہ رپورٹ مشرقی پاکستان کے حوالے سے خاصی متعصبانہ ہے، پھر بھی اس میں جو ہوش رُبا انکشافات ہیں، اُنھیں پڑھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ لیکن ہم ابھی بھی اپنی درسی کتب میں پڑھاتے وہی ہیں جو یحییٰ خان کو بدمست قرار دینے کے باوجود اُسی کا بیانیہ ہے۔ جرمنی میں فاشزم آیا، آج تک جرمن بچوں کو فسطائیت اور نسل پرستی کے خلاف تعلیم دی جاتی ہے۔ جاپان میں جاپانی فاشزم کے خلاف آج بھی بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان اور جرمنی دوبارہ فسطائیت کی راہ پہ نہیں گئے۔ لیکن ہمارے ہاں تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ نظریہ ٹھیک ہوا، نہ سیاست و ریاست، نہ درس و تدریس، نہ سلامتی کے بلند و بانگ عزائم میں کوئی تبدیلی، نہ جمہوریت کو استحکام ملا۔ وہی چال، وہی نظریے، وہی جھوٹ، وہی ظلم، وہی سنسر شپ اور وہی مہم جوئی ہمارے مقدر کو گہنائے جا رہی ہے۔ کاش! ہم اپنا بے لاگ تنقیدی تجزیہ کر سکتے، اپنی فاش غلطیوں اور فوجی مہم جوئیوں سے سیکھ سکتے، اپنی اصلاح کر سکتے اور اپنے لئے ایک حقیقت پسندانہ، جمہوری، قومی اور عوامی راہ تلاش کر سکتے۔ کیا ابھی اور وہی پرانے تجربے کرنے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ جس کی ایک جھلک ہمیں بلوچستان میں نظر آ رہی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ تو ہوا۔ اب اور کیا کرنا ہے؟ خدارا! پاکستان کو پاکستان کے عوام پر چھوڑ دیں۔ اگلے انتخابات آزادانہ ماحول میں بروقت ہونے دیں اور جمہوریہ کو آگے بڑھنے دیں۔ اسی میں بھلا ہے۔ ورنہ ایک اور حکایت خونچکاں کی گنجائش نہیں!

تازہ ترین