• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی وی کے پرائیویٹ چینل شروع ہونے سے پہلے اخبارات کے پاس عوام کا ان کے پسندیدہ اداکاروں، فنکاروں اور کھلاڑیوں سے ملاقات کے لئے بہترین پروگرام فورم کے ذریعے ہوتا تھا۔ ایسے ہی ایک فورم میں عمران کو مدعو کیا گیا۔ عمران کو ایسے پروگراموں میں آنے کے لئے آمادہ کرنا مشکل ترین کام تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسے میگزین کے لئے فوٹو شوٹ پر آمادہ کرنا ہوتا تھا۔ ایک فورم کے لئے عمران مانا تو ہم خوشی سے نہال ہو گئے۔ پروگرام میں شرکت کے لئے جب اشتہار چھپا تو فورم میں آنے کے لئے عوام کا تانتا بندھ گیا۔ عمران اپنے روایتی انداز عام سی جینزاور ٹی شرٹ میں وقت مقررہ پر فورم پر آگیا۔
پروگرام شروع ہونے سے پہلے میں نے اسے ضمیر جعفری کے چند اشعار سنائے جو انہوں نے عمران خان کے بارے میں لکھے تھے۔ شعر یہ ہیں؎
چل کے کیا مست چال آتا ہے
جب وہ شاہ غزال آتا ہے
گیند کے ساتھ ساتھ وکٹوں تک
اس کا عکس جمال آتا ہے
ہم کو تو کچھ نظر نہیں آتا
کچھ مگر لال لال آتا ہے
عمران شرما گیا۔ اس زمانے میں عمران کی گفتگو میں اٹکن بہت تھی۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کے خیالات اس کی زبان سے تیز چلتے ہیں۔ وہ جملہ شروع کرتا لیکن اس کو بیچ میں چھوڑ کر کوئی اور بات شروع کردیتا۔ عمران ان دنوں پنجابی زبان اور گالیوں کا استعمال اتنا زیادہ نہیں کرتا تھا۔ لاہور میں ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب اس نے کس سے سیکھا تو وہ ہنس کے بولا پنجابی زبان اور گالیاں مجھے سرفراز نواز نے سکھائی ہیں۔ ویسے عام طور پر عمران شرمیلا ہوتا تھا اور ماحول یا اونچے کلچر کا اس پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ باہر کے ملکوں کے دوروں کے دوران وہ کیا کھاتا ہوگا لیکن یہاں ہماری کئی بار اس سے ملاقات گوالمنڈی میں ہوئی جہاں وہ اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ وہاں کے تکہ کباب کھانے جاتا تھا۔ ایک ایسی ملاقات میں اس نے بتایا کہ اسے ران روسٹ بھی بہت پسند ہے، ویسے عمران کی مہمان نوازی کے حوالے سے جو میں نے اپنے ایک پہلے کالم میں عرض کیا اس سے محسوس بھی ہوتا ہے کہ ایسے کھانوں کے پیسے یقیناً کوئی اور دیتا ہوگا۔ خود عمران کسی کو کھانے کی آفر دینے کی تکلیف نہیں کرتا تھا۔
ایک بار جب اس کو پی ٹی آئی کی بنیاد ڈالے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا تو میرے ایک دوست نے مجھے دعوت دی کہ میں اس کے ساتھ عمران سے ملنے چلوں ۔ ملاقات کے لئے لنچ کا ٹائم مقرر تھا۔ میں عمران کے سیاست پر خیالات جاننے کا شوقین تھا تو چل پڑا۔ اس وقت عمران کے خیالات کچھ ایسے تھے کہ ہم سب سوچتے تھے کہ معلوم نہیں زیڈ اے سلہری صاحب نے اس میں کیا دیکھ لیا ہے جو انہیں اس میں قائداعظم کی جھلک نظر آتی ہے۔ سیاست کے حوالے سے اس کے خیالات عجیب ملغوبہ تھے۔ وہ ہر چیز میں انگلینڈ یا بیرونی ممالک کی مثال دیتا تھا کہ وہاں ایسے ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا ہونے کی ضرورت ہے۔ بات چیت میں دیر ہوئی تو اس نے ہمیں پوچھا کہ لنچ کر کے آئے ہو۔ ہم نے کہا نہیں تو اس نے چپراسی کو اشارہ کیا۔ میں بڑا حیران تھا کہ آج عمران نے کیسے لنچ کا پوچھ لیا اور یہ کہ آج یہ کیا کھلائے گا لیکن ساری خوشی کافور ہوگئی جب چپڑاسی تین چھلیاں(بھٹے) لے کر اند ر آیا۔ عمران نے ایک خود لے کر دو ہمیں دیں اور کہا کہ میں تو لنچ میں بس یہی کھاتا ہوں۔ میں بہت حیران ہوا کہ کہاں گوالمنڈی کے تکہ کباب اور کہاں یہ بھٹے۔
کھلاڑی کے طور پر جیسا میں نے پہلے ذکر کیا عمران سے زیادہ مقبولیت کبھی کسی کو نہیں ملی۔ اس کا ایک اندازہ تو تب ہوا جب پاکستان نے ہندوستان کو ہندوستان میں اس کی قیادت میں ہرایا۔ واپسی پر ٹیم کے استقبال کے لئے اخبارات نے فضا تو پہلے ہی بنا دی تھی لیکن فضا ایسی ہوگی اس کا اندازہ نہیں تھا۔ لاہور میں ایئرپورٹ سے لے کر داتا صاحب کے مزار تک مال روڈ پر لوگ ہی لوگ تھے۔ لوگوں کے چہروں پر خوشی کے تاثرات کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور اس میں ہمارا یہ ہیرو۔ دوسری بار ایسا پاکستان کے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ہوا۔ اگرچہ جیتنے کے بعد ٹرافی لے کر عمران نے جو تقریر کی اس میں اس سے بڑا بلنڈر ہوگیا۔ اس نے بجائے اس کے کہ یہ کہے کہ ہم نے یہ جو ٹورنامنٹ جیتا ہے اور ٹیم کو کریڈٹ دے ایسے الفاظ کہے جس سے لگا جیسے وہ سارا کریڈٹ خود کودے رہا ہے۔ اس سے ٹیم کے کچھ کھلاڑی ناراض تھے لیکن بعد میں عمران نے معذرت کر لی یہ کہہ کر اسے تقریر کرنا نہیں آتی۔ یہ بات صحیح بھی تھی۔ میں نے جیسے پہلے بھی کہا کہ گفتگو میں وہ ہمیشہ لڑکھڑا جاتا تھا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اب عمران کیسے اتنے بڑے جلسوں میں لمبی تقریریں اور پراثر تقریریں کر لیتا ہے۔
یوں تو عمران نے میرے پروگرام ’’پچاس منٹ‘‘ میں کئی بار شرکت کی لیکن میری زندگی کی شاندار یادیں ان ٹیلی تھون سے وابستہ ہیں جو عمران خان کے ہسپتال کی فنڈنگ کے سلسلے میں جیو ٹی وی نے کروائیں اور اس کی میزبانی کے لئے مجھے منتخب کیا۔
ایک ٹیلی تھون میں شرکت کے لئے عامر خان خاص طور پر ہندوستان سے آئے۔ اس کا کل دورانیہ 4گھنٹے تھا۔ اس دوران عمران سے لمبی گفتگو کا موقع ملا۔ وہ اپنے ہسپتال کو بنانے کے لئے کتنا جذباتی تھا اس کا اندازہ ان لوگوں کو خوب ہوگا جنہوںنے وہ ٹیلی تھون دیکھی ہیں۔ ہسپتال بنانے کے لئے عوام نے عمران کی جو پذیرائی کی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے جب وہ سڑکوں پر چندہ جمع کرنے نکلا تو خواتین نے اپنے زیورات تک اس کی جھولی میں ڈال دیئے۔ اس زمانے میں عمران سیاست میں نہیں آیا تھا اور اتنا کنٹراورشل نہیں تھا۔ جب وہ سیاست میں آیا تو پہلے پہل ہمارا خیال یہی تھا کہ عمران کاش صحت اور تعلیم کے حوالے سے ہی کام کرتا رہتا تو جو مقبولیت اسے حاصل ہوتی ویسی پاکستان میں شاید کبھی کسی کو نصیب نہ ہوتی ہو لیکن اس نے شاید اپنے لئے یہی بہتر سمجھا۔ میری عمران سے اب ایک عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن کاش اگر کبھی ہو تواس کی زندگی میں کچھ تبدیلیوں کے حوالے سے میں یہ سوال ضرور کرنا چاہوں گا کہ عمران یہ جو آپ اب ہو یہ کیا کھلا تضاد نہیں ہے۔

تازہ ترین