• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر پائے جانے والے قدرتی گیس کے ذخائر اِس قدر زیادہ ہیں کہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہم دوسرے ممالک کو بھی گیس فراہم کر سکتے ہیں۔ مگر ناقص منصوبہ بندی کے باعث ہم اِس قدرتی خزانے سے ملکی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہمارے ملک کا مستقل مسئلہ بن چکا ہے، مگر موسمِ سرما کا آغاز ہوتے ہی گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہو چکی ہے۔ سوئی گیس کی 20گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔لوگ کھانے پکانے کیلئے مہنگے داموں کوئلہ ، لکڑی اور ایل پی جی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ناقص ایل پی جی گیس سلنڈر استعمال کرنے کی وجہ سے کئی حادثات بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں ۔ لکڑی اور ایل پی جی کے روز بروز بڑھتے دام کی وجہ سے یہ بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں جس کے باعث گھریلوں خواتین کو کھانا پکانے کیلئے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گیس کی عدم موجودگی میں شدید سردی سے محفوظ رہنے کیلئے لوگ الیکٹرک ہیٹروں کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور بھاری بھرکم بلوں سے بچنے کیلئے بجلی چوری کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ محکمہ سوئی گیس کا عملہ شہروں کو سپلائی ہونے والی گیس بند اور پرائیویٹ ملوں کو فراہم کر کے ماہانہ لاکھوں روپے کما رہا ہے۔ اِنہیں صفحات پر بارہا اعلیٰ حکام کو مطلع کیا جا چکا ہے کہ مل مالکان اپنی ملیں چلانے کیلئے غیر قانونی طور پر کمپریسر کا استعمال کر کے گیس پریشر کو بڑھاتے ہیں ، مگر اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ گیس اور بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ کے باعث عوام الناس کے کاروبارِ زندگی اور روز مرہ کے معمولات مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔عوام کی مشکلات کو کم کرنے اور ملکی صنعت و معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا نا گزیر ہے۔ حکومت کو اِس طرف بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین