• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس ریاست سے انصاف کا جنازہ نکل جائے وہاں لاقانونیت، بددیانتی، بدعنوانی، انسانی حقوق کی پامالی اور بے شرمی و بے حِسی کا راج ہوتا ہے اور عدل و انصاف، دیانت داری، جستجو، انسانیت، احساس اور رحم دلی شہرِ خموشاں کی گود میں گہری نیند سوجاتے ہیں، وہاں ملکی خزانے لوٹ لئے جاتے ہیں، دہشت گردی عام ہوجاتی ہے اور بھوکے لوگ خودکشیوں پر اُتر آتے ہیں۔ ایسی ریاستوں کی بنیادیں کھوکھلی ہوجاتی ہیں جہاں حکمران اشرافیہ تو محفوظ پناہ گاہوں کی مکین ہو مگر عوام بے رحم موت کے شکنجے میں ہوں، وہ نظام تلپٹ ہوجاتے ہیں جو ناانصافی کی کمزور بنیادوں پر استوار ہوں، جب ایسے نظام لپیٹے جاتے ہیں تو اس نظام کی رسیا اشرافیہ ہاہا کار مچاتی ہے، جمہوریت پر شب خون کا واویلا کرتی ہے، سیاست کا رونا پیٹتی ہے اور عوامی عدالتوں کا ڈنکا بجاتی ہے۔ سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے جب حکمرانوں کو کوئی دلچسپی نہ ہو تو انصاف فراہم کرنے والے ادارے مفلوج ہوجاتے ہیں، ایسے نظام میں ججوں کے کردار پر انگلیاں اُٹھ جاتی ہیں اور عدالتوں پر عوام کا اعتبار دم توڑ جاتا ہے۔ ایسے معاشروں میں انصاف کی منڈیاں لگتی ہیں جہاں انصاف سربازار بیچا جاتا ہے۔ عزتیں پامال ہوجاتی ہیں، عظمت و وقار دُھول چاٹتے ہیں اور قومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ ایسی قوموں کے سینوں میں جب دشمن خنجر گھونپتا ہے تو یہ احتجاج کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتیں۔ جب ضمیر کی موت واقع ہوجائے تو جدید ایٹمی اسلحے کے ذخیرے بھی ناکارہ ہوجاتے ہیںاور دھرنوں زدہ معیشت جب اپنا رنگ دکھاتی ہے تو بھوک سر بازار ناچتی ہے، غریب روٹی مانگتا ہے مگر سیاست دان اس کے منہ میں باسی، بدبودار جمہوریت ٹھونستے ہیں تو کبھی آمریت کے نام پراس کی عزتِ نفس مجروح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان بے حِس سیاست دانوں کو کوئی سمجھائے غریب نے جمہوریت نہیں کھانی، آمریت سے اس کا خالی پیٹ نہیں بھرے گا۔ غریب کے منہ سے نوالہ تو پہلے ہی چھین لیا گیا ہے ۔ اب جو سیاسی و معاشی بحران چل نکلا ہے وہ تو بڑے بڑے سفید پوشوں کے بھی ہوش اڑا رہا ہے۔ یقین جانئے بڑے برے حالات ہیں، بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعت کار، چھوٹے بڑے دکاندا ر پریشان ہیں، والدین بچوں کے مستقبل سے خوف زدہ اجتماعی خودکشیوں پر مجبور ہیں ہمارا خاندانی نظام معاشی بدحالی کے باعث بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ گھر گھر نان نفقے پر جھگڑا ہے۔ ہر شخص شدید ذہنی انتشار اور اذیت کاشکار ہے۔ طلاقوں، خودکشیوںکی شرح سوچ سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
وطن عزیز میں جاری سیاسی جنگ نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ چار سال سے پورا نظام زندگی دھرنوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اب تو یہ دھرنے سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل کر عوام کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ ہر کوئی احتجاج، طاقت اور دھونس سے اپنی بات منوانے کیلئے دھرنا دیئے بیٹھا ہے۔ آپ جس محفل میں بھی چلے جائیں، جس کھوکھے پر بھی کھڑے ہوں، جس کسی سے بھی بات کریں سوالات ہی سوالات ہیں، لوگ پوچھتے ہیں بائو جی! اب کیا ہوگا؟ حکومت رہے گی یا جائے گی‘ فوج آئے گی؟ بائوجی ! کاروبار ختم ہو گئے،بہت پریشانی ہے کیا کریں؟ مایوسی میں کہتے ہیں کچھ بدلنے والا نہیں، بس یونہی چلتا رہے گا، نہ ہمیں نوازشریف نے کچھ دینا ہے نہ عمران خان نے ، زرداری سے تو بالکل توقع نہیں، کسی اور کی دکان بھی نہیں چلے گی۔ عام آدمی کی مایوسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جو بھی ہوناہے، جس نے بھی آنا ہے یا جانا ہے اس نظام سے جلدی جان چھڑائیں، ایسا نہ ہو کہ ملک کسی بڑے انتشار کا شکار ہو جائے۔ لوگوں کی مایوسی انتہا کو چُھو رہی ہے ، خدانخواستہ وہ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں، انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں د ے رہا، مایوسی کی انتہا دیکھئے وہ خود کلامی کا شکار ہیں، خود سے ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی جواب بھی دیتے ہیں، جب عام آدمی سے بات کی جائے کہ آپ نے ہی اپنے ووٹ سے ان لوگوں کو منتخب کیا تو اب خودہی بھگتیںتو جواب ملتا ہے کیا کریں، کسی کو تو منتخب کرنا تھا ، جو بہتر لگا اسے ووٹ دے دیا کوئی اور نظر بھی تو نہیں آتا۔ یہی چور اُچکے ہماری قسمت میں لکھے ہیں، توووٹ بھی انہی میں سے کسی ایک کو دینا ہے، عام آدمی کسی نئے قائد کی تلاش میں ہے مگر کوئی نظر بھی تو نہیں آتا، ہمارے منتخب اراکین پارلیمنٹ اور وفاقی وزراء کی سنجیدگی کا اندازہ لگائیں کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم پورا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ کوئی ایوان میں آنا پسند نہیں کرتا، کروڑوں کی مراعات حاصل کررہے ہیں مگر قانون سازی صفر ہے۔
منصف طاقت کے سرچشموں میں سے ایک ہیں۔ اگر موقع ملا ہے تو انہیں سسٹم کو ٹھیک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہئے۔ کیا یہ ممکن نہیں کسی فیصلے سے قبل اس کی بنیادی وجوہات کے تدارک کا بھی کوئی حوصلہ افزا حکم نامہ جاری ہو۔ ایسا حکم نامہ جس کا ایک ایک لفظ، کسی غریب کی مدد کرے کسی بے روزگار کو روزگارملے، کسی بیوہ کا تاحیات سہارا بنے۔ جو خاندان معاشی زبوں حالی کے باعث ٹوٹ رہا ہے، اسے بچانے کی کوئی ٹھوس تدبیر کرے۔ کیا کبھی یہ فیصلہ بھی آئے گا کہ ایک وزیراعظم ، ایک وزیراعلیٰ اس کے وزراء ، ارکان پارلیمنٹ، اداروں کے سربراہ صرف اس بنیاد پر اہل ونااہل قرار دیئے جائیں کہ انہوں نے عوام کی کیا مدد کی۔ کس کی جان بچائی کس کو روزگار فراہم کیا، کس کے دکھ بانٹے ، آج ہر وہ فیصلہ تو ہو رہا ہے جو بظاہر احتساب، انصاف کے قانونی پہلوئوں کو مدِنظر رکھ کر کیا جارہا ہے اوراس کے اچھے یا برے اثرات کی کسی کو کوئی فکر نہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ اس بکھری قوم کو اکٹھا کس نے اورکیسے کرنا ہے، انتہا پسندی جیسے جذبات کو کیسے کچلنا ہے کوئی تدبیر تو ہو، ایک تجربہ طاقت کے تینوں ستونوں پر مشتمل (سیاست دان، عدلیہ، فوج) قومی حکومت کا ہی کرلیں جوکم از کم طویل مدت کے ایک معاہدے کے تحت باہمی اتفاق سے بلاتفریق ایک ہی ایجنڈے ترقی، خوش حالی اور روزگار کی فراہمی پر ملک چلائے بصورت دیگر یہ گاڑی زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی اور چلے بھی کیوں؟ جب کسی قوم کے بڑے فطرت کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر اسے متصادم خود ساختہ قوانین تلے دبانے کی کوشش کریں تو گاڑیاں چلتی نہیں بلکہ کسی بڑے حادثے کا شکار ہو جایا کرتی ہیں۔

تازہ ترین