• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کی طرف سے جمعہ کے روز تین اہم فیصلے کرنے کے بعد بین الاقوامی اور مقامی معاشی ا داروں اور حلقوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے کہ پاکستان میں عدالت عالیہ کے فیصلوں میں کوئی بغض یا غیر اعلانیہ رنجش نہیں ہوتی بلکہ مکمل میرٹ پر فیصلے سے عدالتوں کے وقار اور احترام میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ا لگ بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں کسی دوسرے کے حق میں کئے جانے والے فیصلے کو یکطرفہ قرار دینے میں کوئی دیر نہیں کی جاتی۔ ان تین فیصلوں میں جہاں عمران خان کو فائدہ ہوا ہے اور دوسری طرف انہیں معتمد ساتھی جہانگیر ترین کے ڈی سیٹ ہونے کا نقصان ہوا ہے، اس کے برعکس حدیبیہ ملز کیس بند ہونے کا بہرحال شریف فیملی کو مجموعی طور پر طویل المدتی فائدہ ہوا ہے جس کا کریڈٹ کمزور کیس تیار کرنے والے ماہرین کو بھی جاتا ہے۔ بہرحال اب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کیلئے یہ مشکل بن گئی ہے کہ وہ اب سپریم کورٹ کے بارے میں کیارائے دیں گے۔
اصل میں یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کسی بھی پنچائیت یا عدالت کے فیصلوں کو تب مانتے ہیں کہ جب سب چیزیں ان کے حق میں جارہی ہوں، حالانکہ صحت مند معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا، مگر چونکہ ہمارے ملک میں ابھی چند بڑے لوگوں کے سوا مجموعی طور پر قوم میں میچورٹی نہیں آئی ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، اگر یہ صورتحال بہتر ہوجائے تو خود بخود عوام کا اعتماد اور احترام عدلیہ کیلئے بڑھ سکتا ہے۔ اس کیلئے ہمارے طاقتور میڈیا کو بھی مثبت رویے اور سوچ کے ساتھ قوم کی رہنمائی کرنا ہوگی۔ پاکستان کے موجودہ حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ انہیں آئیڈیل قرار دیا جاسکے اس لئے بہتر ہے کہ تمام ادارے مل جل کر ملک چلانے میں مدد دیں اور اس کیلئے سیاسی قائدین اپنے اپنے ایجنڈے کی بجائے قومی ترقی اور مفاد کو ترجیح دینے کی سوچ آگے بڑھائیں۔ ایسا کرنے سے سب سے صحت مند اثرات ملکی معاشی اور سماجی حالات پر پڑیں گے، جس پر سیاسی قائدین کو بھرپور توجہ دینا ہوگی کہ پاکستان میں عوام کی معاشی زندگی کی صورتحال کیسے بہتر بنائی جاسکتی ہے اور اس کیلئے پارلیمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کو کیا کیا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اب دیکھئے سپریم کورٹ کی طرف سے عمران خان کو اہل قرار دینے سے سب سے زیادہ بیرون ملک پاکستانیوں میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے اور مقامی سطح پر بھی عوام کی اکثریت نے اطمینان کا سانس لیا ہے کہ اس فیصلہ سے پاکستان میں محاذ آرائی کی سیاست کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور دوسری طرف عمران خان بمقابلہ شہباز شریف کے حالات واضح ہوگئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان میں جب بھی حالات بہتر ہوں گے اصل مقابلہ انہی دونوں کا ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ عمران خان کی طرف سے میاں شہباز شریف کو براہ راست مقابلہ کرنے کا چیلنج بھی دے دیا جائے، جس سے مسلم لیگ (ن) کیلئے پچھلے 25۔30سالوں سے بھی ز یادہ محنت کرنا پڑے گی۔
خدا کرے پاکستان میں سیاسی قائدین کے ریڈار پر قومی اقتصادی ایشوز بھی واضح ہوجائیں تو اس سے 20کروڑ میں سے 19کروڑ 80لاکھ افراد سے زائد کا فائدہ ہوسکتا ہے۔دوسری صورت میں یہ ہونا چاہئے کہ عوام اندھا دھند کسی پارٹی کے پلڑے میں اپنا ووٹ نہ ڈالیں، اور اپنا حق رائے دہی سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ اس سے جمہوریت کے اداروں کو مضبوط کرنے اور ملک میں صحیح قیادت لانے کے مقاصد پورے ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین