• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل پارلیمان کی راہداریوں میں جس سے ملیں،سلام دعا کے بعد پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے؟ اس کے بعد پے در پے سوالات ہوتے ہیں کہ حکومت مدت پوری کر سکے گی یا نہیں ؟ سینیٹ کے الیکشن ہو پائیں گے؟ اس نظام کو کیسے ختم کیا جائے گا؟ قبل از وقت عبوری یا نگراںسیٹ اپ کیسے تشکیل دیا جائے گا؟ الیکشن منعقد نہ کروائے گئے تو حکومت کس کی ہو گی؟ کیا ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی جائے گی لیکن کیسے؟نگران حکومت کی مدت میں توسیع کیا سپریم کورٹ سے لی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سوالات کرنے والے عوام نہیں بلکہ ان کے وہ نمائندے ہیں جو اسی پارلیمنٹ کے احاطے میں کھڑے ہو کر اس بے یقینی کا اظہار کرتے ہیں جس نے آئین پاکستان کے ذریعے اس اسمبلی کی مدت کا تعین بخوبی کر رکھا ہے جس کے وہ رکن ہیں لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ اسی ماحول میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے یہ فرما کر ان ارکان کے خدشات کو اور تقویت دے دی ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے بجا فرمایا کہ ان سے تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان ملاقات کیلئے آتے ہیں اس لئے انہیں سیاسی جماعتوں کی سوچ اور خواہش کا پتہ چلتا ہے لیکن وہ بھی یہ بتانے سے قاصر رہے کہ کیا ہونے والا ہے اور کیسے ہونے والا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی چھٹی حس کو بنیاد بنا کر جس خطرے کی نشان دہی کی اس سے انہوں نے تو اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا لیکن ان کی اس وارننگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ن لیگی ارکان جو پہلے ہی قومی اسمبلی میں آنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے تھے ان کی مایوسی اور بد دلی اتنی بڑھ گئی کہ حکمراں جماعت گزشتہ پورے ہفتہ قومی اسمبلی میں اتنے ارکان کی حاضری کو یقینی نہیں بنا سکی کہ کورم برقرار رکھ کر اجلاس کی کارروائی ہی چلا سکتی۔ حکمراں جماعت کے ارکان کی موجودہ نظام میں اگرکوئی دلچسپی باقی ہے تو وہ بھی صرف اس حد تک کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مترادف اپنے حلقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے باقی ماندہ فنڈز حاصل کر لئے جائیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے بیان سے ممکنہ طور پر پہنچنے والے نقصان پہ قابو پانے کیلئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نہ صرف اس کی فوری طورپر تردید کی بلکہ یہ عزم دہرایا کہ موجودہ حکومت آئینی مدت پوری کرے گی اور عام انتخابات مقرر وقت پر ہی ہوں گے۔ حکمراں جماعت میں ایک دھڑا ایسا ہے جو مائنس نواز شریف فارمولے کو کسی قیمت پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی قیادت میں دوسرے دھڑے کی یہ سوچ ہے کہ معاملات کو افہام و تفہیم سے ایسے آگے بڑھانا چاہئے کہ جس میں نواز شریف کی عملی سیاست میں بتدریج واپسی کو شرف قبولیت بخشوایا جا سکے۔ موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان کا وزن بھی ثانی الذکر فریق کے پلڑے میں ہے لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی انا کو نا اہلی سے پہنچنے والی ٹھیس کو کسی طور بھلانے کو تیار نہیں ہیں جبکہ ان کی صاحبزادی کی ہمہ وقت شعلہ بیانی ان کے مزاحمتی ارادوں کو مہمیز عطا کرنے میں وہی کردار اد اکر رہی ہے جو جلتی پر تیل چھڑک کر کیا جاتاہے۔اس صورتحال میں سپریم کورٹ کے دو مختلف بنچوں کی طرف سے سنائے جانے والے دو مختلف فیصلوں نے ملکی سیاست کا آئندہ کا رخ متعین کر دیا ہے جس میں نواز شریف کی بجائے اب شہباز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان حریف ہوں گے۔ شہباز شریف زمینی حقائق کو تسلیم کر چکے ہیں اس لئے انہوں نے حدیبیہ پیپر ملز میں سنائے گئے فیصلے کو حق اور سچ کی فتح قرار دیتے ہوئے اسی عدالت عظمی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے جس پر ان کے قائد نواز شریف آئے روز بد اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مزاحمتی رویئے اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘کی تکرار کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دائر درخواستوں کے فیصلے میں بنچ کے ایک فاضل جج نے اپنے اضافی نوٹ میں تفصیل سے بتا دیا کہ انہیں کیوں نکالا گیا۔ مسلم لیگ ن کے حمایتی اس اضافی نوٹ کو بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس بیانیے کا ثبوت قرار دے رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے فیصلے میں بھی انہیں ہی نا اہل کیا جائے گا۔ اس غیر معمولی اضافی نوٹ میں فاضل جج نے نہ صرف پاناما بنچ کے پانچ ججز سے بھرپور اتفاق کرتے ہوئے جناب نواز شریف کی دیانت داری کو مشکوک قرار دیابلکہ انہیں وزیر خزانہ ، وزیر اعلی اور وزارت عظمی جیسے عوامی عہدوں پرفائز رہنے کے دوران اثاثہ جات بنانے کیلئے اختیارات کے ناجائز استعمال کا مورد الزام بھی ٹھہرا یا۔ معزز جج کے اس غیر معمولی اضافی نوٹ پر سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی غیر معمولی رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اسے بلا جواز قرار دیا بلکہ یہ سوالات بھی اٹھائے کہ جج صاحب آپ کو صفائی دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ،کیا آپ پاناما بنچ کا حصہ رہے،کیا آپ نواز شریف کے خلاف کسی سماعت کا حصہ رہے؟۔ متاثرہ فریقین کا رویہ اپنی جگہ لیکن عمران خان اور جہانگیر ترین کی اہلیت کے بارے میں چیف جسٹس ، جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی طرف سے دئیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پرآئینی اور قانونی ماہرین نے بھی متعدد سوالات اٹھائے ہیں۔ ان ماہرین کے نزدیک سپریم کورٹ کا پانامااور اس فیصلے میں دہرا معیار واضح طور پہ سامنے آیا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف اٹھنے والی انہیں انگلیوں پر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک سیمینار سے خطاب کے دوران اپنے فیصلے کی وضاحت دینا پڑی۔ انہیں حلفیہ کہنا پڑا کہ عدلیہ پر کوئی دباو نہیں اورنہ کسی پلان کا حصہ بنیں گے۔ فیصلے ضمیر کے مطابق کرتے ہیں،آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جو انہیں دباو میں لائے۔انہوں نے قسم کھا کر یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کہ انہیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کا فیصلہ بھی اسی دن آنا ہے۔ چیف جسٹس نے عدلیہ کو قوم کا بابا قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس بابے کی عزت کی جائے،اسے مطعون نہ کیا جائے۔ اس غیر معمولی وضاحت کے بعد ’’بابا‘‘ طنز و مزاح میں گھر چکا ہے جبکہ میاں صاحب نے بابے کے ’’مبینہ ‘‘کردار کو عوام کے سامنے لانے کیلئے ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کے فیصلے کے بعد بے یقینی مززید بڑھ گئی ہے کہ اب شہباز شریف اور چوہدری نثار جیسے رہنما کیا میاں کا عصا بننےپر راضی ہوں گے یا بابے کی تنبیہ پر کان دھریں گے۔ میاں صاحب بابے کے خلاف جس اکھاڑے میں اترنے کیلئے بضد ہیں کیا مسلم لیگ ن متحدہ ہو کران کی پشت پر کھڑی ہو گی یا انہیں جوش کی بجائے ہوش سے کام لیتے ہوئے بابے سے زور آزمائی نہ کرنے پرقائل کر لیا جائے گا۔ وزارت عظمی سے ہاتھ دھونے اور احتساب عدالت میں بدستور پیشیاں بھگتنے والے نواز شریف کی انا اپنی جگہ لیکن تاریخ کے اس دوراہے پرانہیں بہت پھونک کر قدم اٹھانا ہو گا کیونکہ ان کے آئندہ فیصلے کے ساتھ صرف مسلم لیگ ن کی قسمت ہی نہیں بلکہ پاکستان کا مستقبل بھی جڑا ہوا ہے۔ صورتحال کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمہ داری اور بھی متعدد عوامل پرعائد ہوتی ہے اس لئے تمام فریقین کا فرض ہے کہ ملک کو بے یقینی کی اس صورتحال سے نکالنے اورکسی بھی بحران سے بچانے کیلئے مل کر بیٹھ جائیں اور ایک ایسا نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے جس میں محاذ آرائی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ تمام فریقین اس تلخ حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ زورآزمائی کی صورت میں کوئی بھی جیتے لیکن پاکستان ہار جائے گا۔

تازہ ترین