• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاویدہاشمی کی کتاب’’زندہ تاریخ‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ان سے پاکستان میں جمہوری تسلسل کو پیش خطرات بخوبی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔اس موقع پر رضاربانی نے خبردارکیا کہ عقائدکو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے اور یہ کہ ملک مزید عسکری لشکروں کو پروان چڑھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کی حکمرانی کو ختم کرکے وارلارڈز کو جنم دیا جارہاہے۔کچھ ہی دن پہلے آرمی چیف نے اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فوج اور سیاستدانوں سمیت سب نے غلطیاں کی ہیں اور یہ کہ حکومت چلانا فوج کا کام نہیں ہے۔یہ بیان آج کے سیاسی پس منظر میں بڑا امیدافزا ہے۔
تاریخی طورپر دیکھا گیا ہے کہ مذاہب میں نئے نئے فرقے پیدا ہوتے رہتے ہیںجو اپنی اپنی ضروریات پوری ہونے پر ختم ہوجاتے ہیںمثلا عیسائیت میں جب سرمایہ دارطبقے کو کاروبار میں سود کی ضرورت محسوس ہوئی توکیلون(CALVIN)(وفات1594ء)نے اپنی تاویلات اور تفاسیر کے تحت ان رکاوٹوں کو دور کیا۔اسی وجہ سے مختلف عقائد میں احیا، قدامت پرستی اور جدیدیت کی تحریکیں متحرک رہتی ہیںتاکہ کسی طرح سیاسی اقتدار حاصل کرکے اپنی تعلیمات اورقوانین کو نافذ کرسکیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کے ناقدین کا خیال ہے کہ اس مکتبہ فکر کے ماننے والوں نے ہندوستانی معاشرے میں ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے ان تمام روایات، رسم و رواج اور عقائد کو اپنا لیا جوگزرتے وقت کے ساتھ ہندوستانی معاشرے میں رائج ہو رہے تھے۔ شاید ایسا اس لئے کیا گیا کہ مسلمانوں کی زندگی میں خلا پیدا نہ ہو۔ پیرپرستی،مزاروں کا احترام،اولیا کرام کے عرس،میلاد شریف کی محافل،فاتحہ خوانی ،چہلم کی رسومات اور نعت گوئی کا اہتمام بریلوی نقطہ نظر سے روحانی سرگرمیاں ہیں اور ان کی بدولت زندگی میں توانائی آتی ہے۔اس مکتبہ فکر کے ماننے والوں کی غالب اکثریت کا تعلق عام لوگوں سے ہے۔ سید احمد شہید کی تحریک نے ہندوستان کو جب دارالحرب قرار دیا تو اس زمانے میں ہندوستان کے کچھ علماء نے اس بنیاد پر اختلاف کیاکہ ہندوستان میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے اسلئے اسے دارالحرب قرار نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے مسلمانوں کی جدید تعلیم کی مخالفت نہ کی اور نہ انہیں انگریز کی ملازمت کرنے سے منع کیا۔ جس مسلک میں خواجہ نظام الدین اولیا جیسے بزرگوں کی فکر شامل ہو اور جن کی درگاہ پر آج بھی نوے فیصد پیروکاروں کا تعلق مختلف مذاہب سے ہو اس مسلک میں شدت پسندی کا تاثر پاکستان میں سماجی تنزلی کی رفتار کو مزید بڑھا دے گی ۔فیض آباد معاہدے کی ایک خطرناک شق نصاب پر نظر ثانی کرنے کے بارے میں بھی ہے ایسی تبدیلی مزید خلفشار کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور دوسرے مکاتبِ فکر بھی اپنی اپنی تاویلیں دیں گے۔جس کے نتیجے میں نہ صرف فرقہ واریت کو تقویت ملے گی بلکہ ہماری اگلی نسلیں ذہنی طور پر بھی اکیسویں صدی کے فکری تقاضے پورے نہیں کرسکیں گی۔دہشتگردی اور فرقہ واریت آج پاکستانی معاشرے کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ فرقہ وارانہ جھگڑے بنگلہ دیش،ملائیشیا اور انڈونیشیا میںکیوں نہیں ہوتے۔
میرے خیال میں جب ایک فرقہ کامل یقین کرلیتا ہے کہ وہ ہی سچائی پر ہے اور دوسرے گمراہ ہیں تو یہ نکتہ ہمیشہ فساد کا باعث بنتاہے۔امریکہ نے 80ء کی دہائی میں اپنے مفاد کیلئے ہمیں استعمال کیا۔دنیا بھر سے مجاہدین بغیر کسی کاغذات کے افغانستان دھکیل دیے گئے۔جس کا خمیازہ صرف پاکستانی سماج ہی نہیں بلکہ پورا خطہ بھگت رہاہے۔اب ریاست نے انہی لوگوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے رفاہِ عامہ اور خدمتِ انسانی کا کام بھی لینا شروع کردیا ہے۔فیض آبادکا دھرنا جس نے ریاست کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا اس کے ختم ہوتے ہی اچانک طاہر القادری کی آمد اور زرداری کا ان سے ملنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ن لیگ کو اگلے الیکشن میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔سیاسی میدان میں جماعتوں کا جوڑ توڑ تو چلتا ہی رہے گا لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میںریاستی اداروں کا اپنی سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پورے سماج کو گھپ اندھیرے میں جھونک دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔
پاکستانی ریاست نے جب سے اپنے آپکو نظریاتی قرار دیا ہے اس نے دانشوروں کیلئے بہت سی مشکلات کھڑی کردی ہیںکیونکہ ایک نظریاتی ملک میں طے شدہ بیانیے کے خلاف کچھ برداشت نہیںکیا جاسکتا۔لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے جس کومقتدرہ ریاستی ادارے نظرانداز کررہے ہیںکہ کوئی بھی ریاست زیادہ دیرتک نظریے کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔روس کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اتنی طویل انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا گیا تھا لیکن آخر میں نظریہ کا بوجھ برداشت نہیں کرسکا۔
آج تمام قوموں کی ترقی جمہوریت اور سیکولرازم ہی میں مضمر ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقے یا مسلک سے ہو۔دنیا بھر میں سیکولرازم سے مراد ریاست کا مذہبی معاملات میں غیر جانبدار ہونا ہے تاکہ معاشرے میں تمام لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکیں۔وہاں کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں کے عقیدے یا مسلک میں دخل دے یا اپنے مسلک یا عقیدے کودوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ ہمیں سری لنکا سے سبق حاصل کرنا چاہیے جہاں ہندو،مسلمان، عیسائی اور بدھ مت مذاہب کے ماننے والے ریاستی قوانین کے تحت امن اور بھائی چارے سے رہ رہے ہیں۔پاکستان کو اگر بین الالقوامی اقوام میں زندہ و تابندہ قوم کے طور پر شامل رہنا ہے تو پاکستان ،ہندوستان اور بنگلہ یش کو سری لنکن ماڈل اپنانا ہوگا۔

تازہ ترین