• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے ضلع تھر میں غذائی قلت و امراض کے سبب بچوں کی اموات کے حالیہ اعدادوشمار سامنے آنے کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ علاقے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے صحت عامہ کو بہتر بنانے میں مدد ملے اور بچوں کی شرح اموا ت میں کمی آئے۔اخباری اطلاعات کے مطابق ضلع بھر میںرواں سال کے دوران بچوں کی اموات کی مجموعی تعداد 566ہوگئی جس میں مزیداضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔گزشتہ دنوںسول اسپتال مٹھی میں مناسب سہولتیں نہ ملنے پر زیر علاج دو نومولود سمیت چھ بچے دم توڑ گئے،اس طرح رواں ماہ اموات کی تعداد اٹھاون ہوگئی۔ یہ تشویشناک صورت حال ملک میں شعبہ صحت کو نظر انداز کئے جانے کا بین ثبوت ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس وقت ضلع بھر کے اسپتالوں میںدو سو سے زائد بچےزیر علاج ہیں۔جبکہ سردی کی شدت سے بھی اموات کا سلسلہ تیز ہوا ہے۔دیکھا جائے تو تھر میں بھوک و افلاس کے ہاتھوںانسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں آج سے نہیں بلکہ برسوں سے متواتر آرہی ہیں لیکن تاحال حکومتی سطح پر مسئلے سے نمٹنے کی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔آج کے دور میں جب فاصلے سمٹ گئے ہیں،تیز رفتار ذرائع نقل و حمل سے دور افتادہ علاقوں تک رسائی چنداں مشکل نہیں رہی ،ایسے میںغذائی کمی و ناکافی طبی سہولتوں سے اموات کا مسئلہ کم از کم پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے فوری اقدامات اٹھانا چاہئیں۔بچوں کی صحت کا دارومدار ماں کی اچھی صحت پر ہوتا ہے اسپتالوں کو خصوصی فنڈز دئیے جائیں کہ متوقع مائوں کی قبل از پیدائش نگہداشت کی جائے اور وہ ایک صحتمند زندگی کو جنم دے سکیں۔اسی طرح علاقے میں مناسب غذائیں پہنچائی جائیں جو امدادی قیمتوں پر مقامی آبادی کو فراہم ہوں ۔اس کے ساتھ ساتھ پانی کی کمی دور کرنے کیلئے لائنیں بچھائی اور ٹیوب ویل لگائے جائیں۔ایسے اقدامات سےہی تھر کے انسانی المیہ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین