• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کےا سپیکر جناب ایازصادق نے گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حالات 2002 ءسے بھی زیادہ دگرگوں ہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہیں کہ انہوں نے 2002 ءکو کیوں حالات حاضرہ کے لئے پیمانہ بنایا لیکن یہ واضح ہے کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور مسلم لیگ (ن) انتہائی طور پر معتوب تھی۔ جنرل مشرف نہ صرف دو بڑے قومی لیڈروں کو دیس نکالا دے رہے تھے بلکہ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو توڑنے کا عمل شروع کر چکے تھے۔ جنرل مشرف کی تما م تر سختیوں کے باوجود مزاحمت کی فضا موجود تھی اور مستقبل کی بہتری کے لئے تگ و دو کے حوصلے قائم تھے۔ لیکن پچھلے پندرہ سالوں میں عالمی اور قومی سطح پر بہت کچھ بدل چکا ہے ۔ روشن خیال، انسان دوست ترقی پسند طاقتوں کو مزید گزند پہنچی ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے دنیا میں تنگ نظر مذہبی اور فرقہ پرستوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ دنیا کافی مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے لیکن یہ وقت بھی ختم ہو جائے گا اور دنیا ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔
عالمی سطح پر دیکھیں تو وہ کچھ ہو رہا ہے جو کبھی نہیں ہوا تھا۔ امریکہ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا کسی امریکی صدر نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اگرچہ امریکہ کی کانگریس اور سینٹ نے 1995میں قراردادیں منظور کی تھیں جن کے مطابق یرو شلم اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جانا تھا لیکن کسی بھی امریکی صدر کو یہ تبدیلی مناسب نہیں لگی اور ہر کوئی اس نا منصفانہ فیصلے کو ٹالتا رہا۔ لیکن انتہائی دائیں بازو کے ووٹوں سے جیت کر آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی رجعت پسندانہ قوانین لا گو کر دئیے ہیں۔ امریکہ ایران کے لئے بھی زمین تنگ کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے اوروہ عربوں کی باہمی کشمکش سے بھی بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کے غریبوں اور دنیا کے کمزوروں کے خلاف جنگ پورے عروج پر ہے۔
مشرق وسطیٰ میں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا سلسلہ جاری ہے جن سے وہاں کے عوام کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ ہمسائیہ ملک ہندوستان میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے مذہبی جنون اپنی انتہا ئی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے۔ مسلمانوں ، عیسائیوں اور چھوٹی ذات کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ راجستھان میں ’لو جہاد‘ کے نام پر ایک مسلمان کو قتل کیا جاتا ہے اور پھر اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر چلائی جاتی ہے۔ فلمسازوں اور اداکاروں کو موت کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اردو میں حلف لینے پر توہین مذہب کے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں۔ غرضیکہ ہندوستان تنگ نظر قوم پرستی میں پوری طرح جکڑا جا چکا ہے۔ ہندوستان میں روشن خیال اور ترقی پسند طاقتیں شکست و ریخت کے عمل سے دوچار ہیں۔
پاکستان پچھلے پندرہ سال سے مختلف بحرانوں کا شکار رہا ہے۔ سب سے پہلے تو جہادی گروپوں نے ملک میں مار دھاڑ کا سماں قائم کئے رکھا اور ملک میں توہین مذہب کے نام پر بیشمار لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کراچی میں مسلح مافیا گروپ دن دیہاڑے معصوم لوگوں کا قتل کرتے رہے۔ لیکن آخر کار پاکستان کی فوج نے انتہا پسند گروہوں اور کراچی کے مافیاؤں کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی۔ لیکن ایک نامعلوم انداز میں فرقہ پرستی بڑھتی رہی ہے اور ریاست کی رٹ کمزور ہوتی چلی گئی ہے۔ اب صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی فرقہ پرست گروہ چند ہزار کے دھرنے سے ریاست کو جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ملک میں قانون دان خود قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں: عدلیہ پر وکلاء کے حملے معمول بن کر رہ گئےہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے بھی معاملات سنبھلنے کی بجائے بگاڑ کا شکار ہوئے ہیں۔ پہلے تو پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں گورننس نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی پیپلز پارٹی کو الجھائے رکھا لیکن خود پیپلز پارٹی کو بھی اچھی گورننس دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔پانچ سالوں میں پیپلز پارٹی میں ارب پتیوں کی تعداد میں تو اضافہ ہوا لیکن عوام کی حالت نہیں بدلی۔ یہی صورت حال مسلم لیگ (ن) کی ہے جس نے پچھلے چار سالوں میں لوڈشیڈنگ کم کرنے کے علاوہ کوئی خاص کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔ پچھلے چار سالوں میں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جمہوری ادارے کمزور تر ہو چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے جمہوری ادارے ، قانون ساز اسمبلیوں و نظر انداز کئے رکھا۔ شریف برادران نے شخصی حکومت کا ماڈل اپنایا اور عوام کے منتخب نمائندوں کی بجائے نچلے درجے کی نوکر شاہی پر تکیہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جمہوری ادارے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ ا سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو ہر طرف مایوسی نظر آتی ہے۔
اسپیکر ایاز صادق کی میڈیا کے ساتھ گفتگو سے تاثر ملا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف کوئی بڑی سازش ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن اس وقت حکومت ان کی پارٹی کے پاس ہے اور وہ مظلومیت کا کارڈ نہیں کھیل سکتے۔ شاید مظلومیت کے کارڈ کا بے اثر ہونا ہی ان کی مایوسی کا بڑا سبب ہو۔ لیکن ملک میں فرقہ پرستی کا دھواں اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ اس میں سانس لینا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ ریاست کی وہ رٹ جسے مولانا طاہر القادری نے دھرنے کے ذریعے پیپلز پارٹی کے دور میں چیلنج کیا تھا اب ایک نہ تھمنے والے طوفان کے سامنے بے بس ہو چکی ہے۔ دھرنوں کے سلسلے میں یہ پہلو دلچسپ ہے کہ حکومت کسانوں، مزدوروں اور دوسرے ملازمین کی ریلیاں فوراً تہس نہس کر دیتی ہے لیکن مذہبی اور سیاسی دھرنوں کے سامنے ڈھیر ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم طبقات اپنے معاشی مفادات کے لئے تو طاقت کا استعمال جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے نظریاتی ہمنواؤں کے سامنے کمزور پڑجاتے ہیں۔غرضیکہ ملک میں حالات ایسے ہیں کہ انسان دوست طاقتوں کو شدید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین