• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی زندگی کے تلاطم میں حالات حاضرہ کی روانی ایک بڑی خبر کی آمد کے ساتھ ہی کتنے ہی اہم خبری موضوعات اورمیڈیا میں جاری ان کے فالو اپ کو یکدم ختم یا کم تر کردیتی ہے۔ اکثر و بیشتر یہ فالو اپ اس لحاظ سے خبروں سے بھی زیادہ اہم ہوتے ہیں کہ یہ اہم قومی امور پر قومی مکالمے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جن سے زیر بحث موضوعات پر ہونے والی بحث و تمحیص اور مزید اطرافی خبروں کا سلسلہ نہ صرف رائے عامہ کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے بلکہ اس فالو اپ میں متعلقہ خبری موضوع پر متعلقہ ماہرین کی آراء سے اتنی اہم رہنمائی ملتی ہے جو پالیسی و فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرتے ہوئے اس عمل کی سمت درست کردیتی ہے، یوں ملک و قوم اس ابلاغی عمل کے بذریعہ میڈیا بینی فشری بنتی ہے۔ یہ عمل تسلسل میں ہو تو میڈیا کا کردار کمال حد تک نتیجہ خیز ہوجاتا ہے۔
ابھی دو ماہ قبل، واللہ عالم کس ذریعے سے اور کتنی مصدقہ یا غیر مصدقہ خبر آئی کہ ملک میں موجودہ بحرانی کیفیت کو ختم کرنے اور سیاسی و اقتصادی صورتحال کو سنبھالا دینے کیلئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ بس پھر اس خبری موضوع پر مزید خبریں ان ہی کے حوالے سے حالات حاضرہ کے ٹاک شوز، مزید خبری سلسلے اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے فوائد اور اس کے خلاف ہونیوالے سیاسی بیانیوں پر مبنی فالو اپ میں ڈھل گئیں۔ کچھ خبر کی کمزور صحت ا ور آئین میں ایسی حکومت کے قیام کی گنجائش کی عدم موجودگی نے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے موضوع کو جلد میڈیا سے غائب کردیا۔ ’’آئین نو‘‘ میں اسکے جاری فالو اپ میں واضح کیا گیا کہ کسی مخصوص طبقے کی حکومت کے قیام کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں، تاہم یہ لازم ہے کہ گورننس میں پالیسی اور فیصلہ سازی ہی نہیں ان پر عملدرآمد کے حوالے سے ٹیکنو کریٹس کا کردار گڈ گورننس کا تقاضا ہے۔ اس کے بغیر امور حکومت کے جملہ پہلوئوں کی سمت درست ہو ہی نہیں سکتی۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں کیا معاشی اور کیا سماجی ترقی اور پھر سیاسی جمہوری استحکام کے حوالے سے ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں ٹیکنو کریسی کی ادارہ سازی بہت زیادہ اور مستحکم ہے جس سے تمام ریاستی ادارے بشمول وزارتیں اور محکمے اپنی سمت درست رکھنے اور زیادہ سے زیادہ مطلوب ضرورتیںپوری کرنے کیلئے نتیجہ خیز خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اسکے برعکس ترقی پذیر ممالک میں ایک تو برین ڈرین، دوسرے کرپٹ اور حکومتی بدانتظامی کے باعث ٹیکنو کریٹس کے اداروں(تھنک ٹینکس، ریسرچ ادارے اور یونیورسٹیاں) گڈ گورننس کیلئے اپنے لازم شیئر سے بھی محروم ہیں کیونکہ اپنی من مانی گورننس کیلئے یہ روایتی حکمرانوں کو کسی طور گوارا ہی نہیں کہ وہ متعلقہ شعبوں میں علم کے پس منظر اور طاقت کی بنیاد پر ٹیکنو کریٹس کو گورننس میں گوارا کریں۔ اقتدار کی پوری باری مکمل کرنیوالے پی پی کے دور (2008-2013) میں جس طرح انرجی کا بحران پیدا ہوا، بڑھا اور معیشت اور قومی زندگی کو تلپٹ کیا گیا۔ اسی طرح جاری ن لیگی دور میں خارجہ امور اور اطلاعات کی وزارتوں کو چلایا گیا اور مالی بحران کا تمام تر انحصار (ایک سے بڑھ کر ایک ملکی ماہر اقتصادیات کی موجودگی میں بھی) فقط ماہر مالیات نہیں بلکہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ وزیر خزانہ اور ظالم عالمی مالیاتی اداروں پر کیا گیا۔ اس نے واضح کردیا کہ اسٹیٹس کو کے روایتی حکمران ٹیکنو کریٹس سے کتنے الرجک ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ کے آخری اجلاسوں میں جس طرح کی متنازع اور انتشار کو بڑھانے والے حددرجہ متنازع بلکہ تشویشناک بھی، قانون سازی ہوئی، اس نے واضح کردیا کہ ہماری وزارت قانون پارلیمانی امور خود پارلیمان، پارلیمانی عمل کو پارلیمانی نظام کے مطابق چلانے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہے یا مکمل مکاری سے متعلقہ مہارت کو اپنی من مانی چلانے کیلئے گورننس کے ان اہم ترین امور سے دور رکھتی ہے۔
اسی پس منظر اور ملک کے جاری اور بڑھتے اقتصادی بحران میں اقتصادی اور سماجی، اقتصادی امور پر پاکستان کے کوالٹی اور پوٹینشل تھنک ٹینک’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ڈیویلپمنٹ‘‘ (پائیڈ) کی میزبانی میں ’’پاکستان سوسائٹی آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس‘‘ کی تین روزہ کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی جس کی تھیم’’بدلتی عالمی اقتصادیات میں خوشحالی کی نئی راہیں، پاکستان کے لئے مواقع اور چیلنجز‘‘ تھا۔ افتتاحی اجلاس کی صدارت ممتاز اقتصادی دانشور جناب سرتاج عزیز نے کی۔ پائیڈ کے علاوہ ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے سنٹر فاراکیسی لینس سی پیک یو این ڈی پی، انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، جرمنی کے تحقیقاتی ادارے فرڈرخ ایبرٹ سٹفنگ فائونڈیشن آکس فیم، آغا خاں رورل سپورٹ پروگرام، آسٹریلین سنٹر فار انٹرنیشنل ایگریکلچرل ریسرچ، ہائر ایجوکیشن کمیشن، سٹیٹ بنک آف پاکستان، ایشیئن ڈیویلپمنٹ بنک، بنک الحبیب اور میزان بنک جیسے ایجنٹس آف چینج اس بڑی اہم کانفرنس کے شریک میزبان تھے جو پاکستان کسی گھمبیر اقتصادی صورتحال میں ایک اہم تھیم کے ساتھ ہوئی۔
واضح رہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس پاکستان میں اقتصادی امور کی ریسرچ اور برین ا سٹارمنگ پر ایک قابل قدر ادارہ ہے جسے ہارورڈ کابیک گرائونڈ رکھنے والے پاکستانی ماہرین اقتصادیات و سماجیات نے قائم کرکے اپنے اپنے فیلڈ میں قومی ضروریات کے مطابق معیاری تحقیق کی ، افسوس کے ہماری حکومتوں نے اس سے استفادہ نہیں کیا یا جو کیا جو بہت لوپروفائل میں رہا باوجود اس کے کہ یہ خود مختار حیثیت کے ساتھ حکومتی ادارہ ہی ہے۔ آج بھی یہ پروفیسر ڈاکٹر اسد زمان جیسے نامور ماہر ترقیاتی اقتصادیات کی وائس چانسلری میں معیاری تحقیق میں مصروف عمل ہے۔ پائیڈ کے گورننگ بورڈ میں کتنے ہی عالمی تھنک ٹیکس کے ٹیکنو کریٹس ا سکالر اور محقق بشمول پلی اوریٹنرر شامل ہیں اور ڈاکٹر محبوب الحق جیسے نامور چینج ایجنٹ اس کی اٹھان میں خدمات انجام دیتے رہے آج جبکہ پاکستان گھمبیر اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ ہماری حکومت اور سیاسی جماعتوں کو کوئی ہوش نہیں کہ اگر اب بھی پاکستان میں کوئی ادارہ (خصوصاً ریسرچ کا) اپنے تشخص کو اپنے مقاصد کے مطابق قائم دائم رکھے ہوئے ہے۔ اورا سٹیک ہولڈرز میں قابل قدر ہے تو اس سے رسماً اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ ٹاپ پالیسی میکنگ میں اس کی خدمات لی جائیں۔
ہماری سیاسی جماعتوں کی منشور کمیٹیاں ا ور تھنک ٹینکس بھی کبھی اپنے انتخابی پروگرام کی تیاری میں ان سے رجوع کریں جبکہ یہ الیکشن ائیر، یہ کوئی حکومتی ہی نہیں بلکہ قومی ادارہ ہے۔ متذکرہ سہ روزہ کانفرنس میں پاکستان کی اقتصادی استحکام اور مستقبل کے امکانات کے حوالے سے بہت اہم فنی معلومات اور تجزیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ آخر ہمارا مکمل رخ عملی سیاست کی طرف ہی کیوں ہے، ایسا ہے تو تبھی تو ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کو کانفرنس میں یہ سوال اٹھانا پڑا کہ ہمارے ملک میں ایک شہر کی اورنج ٹرین کے لئے 200ارب مختص کئے جاتے ہیں اور تعلیم کیلئے فقط 2 ارب روپے تو پھر ترقی اقتصادی اور سماجی دونوں کیسے ہوں گی۔ اسے تو شاید حکام سیاسی بیانیہ ہی جانیں گے لیکن اور بہت کچھ جدید ترین علوم کی روشنی میں ماہرین نے کہا کیا ہماری وزارتیں ہمارے ماہرین اور سیاسی جماعتیں جو عوام کی حالت تبدیل کرنے کے عزم باندھے ہوئے ان کے پیش کئے حل اور دیگر نشاندہیوں کو سمجھیں گے اور عام کریں گے؟

تازہ ترین