• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خالق و مالک، قادر قدرت کے نظام میں کچھ باتیں طے شدہ ہیں۔ طے شدہ باتوں کے بارے میں ایک ہی رائے ہوتی ہے، دو آرا نہیں ہوتیں۔ مثلاً آپ، میں اور افلاطون دلوں میں پوشیدہ بھید، چھپے ہوئے راز، نیتیں معلوم نہیں کر سکتے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ عدالتوں میں روزانہ مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھ کر، قسم کھا کر جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں۔ مجرم بری ہو جاتے ہیں، بے گناہ پھانسی پر لٹکا دیئے جاتے ہیں۔ جج صاحبان کی گواہوں کے دل میں چھپی ہوئی نیتوں تک رسائی نہیں ہوتی۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر بھی اقرارناموں پر کئے گئے دستخطوں کے بعد دستاویز کو معتبر سمجھا جاتا ہے، بلکہ مانا جاتا ہےاور ایسی دستاویز کی حیثیت قانونی ہو جاتی ہے۔ روزمرّہ کی زندگی میں کئی اقسام کے حلف ناموں سے واسطہ پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے آپ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلف نامے پر دستخط کرتے ہیں۔ چونکہ آپ کا نصب العین شناختی کارڈ حاصل کرنا ہوتا ہے اس لئے آپ حلف نامے میں لکھی ہوئی عبارت کی طرف توجّہ نہیں دیتے۔ اگر توجّہ دیتے ہیں تو پھر ان شقوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو آپ کی سوچ سمجھ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ آپ کی تمام تر توجّہ حصول شناختی کارڈ پر مرکوز ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ حلف نامہ پر دستخط کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے۔ آپ بے دھڑک حلف نامہ پر دستخط کر دیتے ہیں۔ آپ کو شناختی کارڈ چاہئے۔ شناختی کارڈ آپ کو مل جاتا ہے۔
حلف نامہ ظاہر کے زمرہ میں آتا ہے۔ ظاہر ہوتا ہے۔ حلف نامہ سب کو نظر آتا ہے۔ حلف نامے پر دستخط کرنے والے کی نیت کسی کو نظر نہیں آتی۔ دستخط کرنے والے کا ارادہ کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ حلف نامہ پر دستخط کرنے والے کا نصب العین شناختی کارڈ کا حصول ہوتا ہے۔ اس لئے حلف نامہ کی حیثیت اس کیلئے ثانوی ہو جاتی ہے۔ آپ پاسپورٹ بنوانا چاہتے ہیں۔ طرح طرح کی کاغذی کارروائی کے دوران آپ کو ایک حلف نامہ پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ چونکہ آپ کی تمام تر توجّہ پاسپورٹ کے حصول پر مرکوز ہوتی ہے اس لئے آپ حلف نامے پر دستخط کر دیتے ہیں۔ آپ کے دل میں چاہے کیسے بھی متضاد خیالات پنپ رہے ہوں، آپ حلف نامہ پر دستخط کر دیتے ہیں۔ آپ کو ہر حال، ہر صورت میں پاسپورٹ چاہئے۔ دفتری کارروائی کرنے والے حلف نامہ پر آپ کے دستخط دیکھتے ہیں۔ آپ کی نیت نہیں دیکھ سکتے۔ وہ آپ کا ارادہ بھانپ نہیں سکتے۔ دنیا ہمارا ظاہر دیکھتی ہے۔ دنیا ہمارا باطن نہیں دیکھتی۔
آپ بینک میں سیونگ اکائونٹ کھولتے ہیں۔ مگر اپنے اکائونٹ سے ماہ رمضان کے دوران لازمی زکوٰۃ کٹوانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ لہٰذا آپ دو میں سے ایک ترکیب استعمال کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اسی بینک میں کرنٹ اکائونٹ کھولتے ہیں۔ زکوٰۃ سیونگ اکائونٹ سے کاٹی جاتی ہے، کرنٹ اکائونٹ سے نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کرنٹ اکائونٹ سے زکوٰۃ کیوں نہیں کاٹی جاتی۔ سنی سنائی اور اڑتی ہوئی خبر یوں ہے کہ ایک مرتبہ ایک بینک افسر نے کسی کے کرنٹ اکائونٹ سے زکوٰۃ کاٹ لی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے عین اسی وقت بینک افسر کو کرنٹ لگا تھا اور وہ وہیں کا وہیں ڈھیر ہو گیا تھا۔ اس کی جواں سال بیوی بیوہ ہو گئی تھی۔ اسکے چھوٹے چھوٹے بچّے یتیم ہو گئے۔ انکے گھر کا چولہا بند ہو گیا تھا۔ اس المناک واقعے کے بعد بینکنگ قوانین بنانے والے افلاطونوں نے کرنٹ اکائونٹ سے زکوٰۃ کاٹنے کی سختی سے ممانعت کر دی تھی۔ بینک افسر کی شہادت کے بعد اب کرنٹ اکائونٹ سے کوئی بینک زکوٰۃ نہیں کاٹتا۔ اب زکوٰۃ آپ کے سیونگ اکائونٹ سے کاٹتے ہیں۔ مجھ جیسے نابکار رمضان کے بابرکت مہینے میں سیونگ اکائونٹ میں پڑی ہوئی پونجی اپنے کرنٹ اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔ آپ کی پونجی سے زکوٰۃ نہیں کٹتی۔ آپ مرحوم و مغفور بینک افسر کو دعائیں دیتے ہیں جس کی شہادت کے بعد بینکنگ قوانین میں تبدیلی کی گئی تھی اور کرنٹ اکائونٹ کو زکوٰۃ کی کٹوتی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ اہل ایمان بینکوں میں کرنٹ اکائونٹ کیوں کھولتے ہیں؟ کیا وہ زکوٰٰۃ دینا نہیں چاہتے؟ ایسا نہیں ہے میرے بھائیو، میری بہنواور میرے بچّو! ایسا نہیں ہے۔ اہل ایمان کرنٹ اکائونٹ میں اپنی جائز کمائی اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ سود کھانا نہیں چاہتے۔ کرنٹ اکائونٹ میں آپ کو سود نہیں ملتا۔ سیونگ اکائونٹ میں آپ کو سود ملتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سود حرام ہے۔ دنیا بھر کے بینکنگ ماہرین کو ہم ایک دن کیلئے حیران کر دیتے ہیں۔ رمضان کے بابرکت مہینے کی ایک مخصوص تاریخ پر پاکستان بھر کے بینکوں میں صارفین کے سیونگ اکائونٹ خالی ہو جاتے ہیں اورکرنٹ اکائونٹ بھر جاتے ہیں۔ دوسرے روز ہم کرنٹ اکائونٹ کی رقم اپنے سیونگ اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دیتے ہیں اور ہمارے سیونگ اکائونٹ بھر جاتے ہیں۔
ایک روز کیلئے اپنے سیونگ اکائونٹ کی رقم اپنے کرنٹ اکائونٹ میں ٹرانسفر کرنے اور دوسرے روز کرنٹ اکائونٹ سے دوبارہ رقم سیونگ اکائونٹ میں ٹرانسفر کرنا کئی صارفین کو جھنجھٹ لگتا ہے۔ اس جھنجھٹ سے بچنے کا آپ کے پاس ایک قانونی طریقہ ہے۔ زیادہ مشکل طریقۂ کار نہیں ہے۔ بہت ہی آسان ہے۔ دس روپے کے اسٹامپ پیپر پر خدا کو حاضر ناظر جان کر حلف نامہ پر دستخط کر دیجئے کہ آپ ایک خاص مکتبہ فکر سے واسطہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا اپ کے سیونگ اکائونٹ سے زکوٰۃ منہا نہ کی جائے۔ یہ حلف نامہ بینک کو تھما دیجئے۔ وہ آپ کے سیونگ اکائونٹ سے زکوٰۃ نہیں کاٹیں گے۔ یہ حلف نامہ ایک مرتبہ بینک کو دینا پڑتا ہے۔ اس کے بعد کئی رمضان آئیں گزر جائیں، آپ کے سیونگ اکائونٹ سے زکوٰۃ نہیں کٹتی۔ اس کام میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ میری مثال لے لیجئے۔ میں کٹر سنّی ہوں مگر میں نے حلف نامہ میں بینک پر واضح کر دیا ہے کہ میرا تعلّق کسی اور عقیدہ سے ہے۔ لہٰذا میرے اکائونٹ سے زکوٰۃ کی مد میں ایک پائی نہ کاٹی جائے۔
یہ دنیا صرف ظاہر کو دیکھتی ہے۔ ظاہر کو جانتی ہے۔ ظاہر پر یقین رکھتی ہے۔ کوتاہ نظر دنیا ہمارا باطن نہیں دیکھ سکتی۔ دلوں کے بھید، دلوں کے راز، ہماری نیتیں ایک خالق، ایک مالک کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

 

تازہ ترین