• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کے دل نے اسے دھوکا دیا۔ وہ جو ہر وقت ہنسی مذاق اور بحثا بحثی میں سب سے آگے ہو تا تھا، اور جس کی آواز ساری محفل پر چھا جاتی تھی، دل کے ہاتھوں مار کھا گیا۔ خوش شکل، خوش مزاج اور ہنگامہ پرور افضل خاں۔ ابھی پچھلے اپریل میں ہی تو اس سے ملاقات ہو ئی تھی۔ ٹیلی فون پر تو کسی نہ کسی بہانے اس سے بات ہوتی رہتی تھی، مگر اس ملاقات کا موقع آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے سالانہ جشن ادب نے فراہم کیا تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے اسکے پاس گیا تھا کہ برسوں کی بیماریوں اور دل کے کتنے ہی آپریشنوں کے بعد اسکی حالت اچھی نہیں ہوگی اور اسکی شکل ہی بدل گئی ہوگی۔ لیکن وہ تو ہنستا مسکراتا ہوا ملا۔ ہاتھ میں چھڑی تھی مگر وہ چھڑی ایسے لگتی تھی جیسے یونہی اس نے ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ کہنے لگا آپریشنوں نے میرا سارا جسم چھلنی کردیا ہے۔ ایک آپریشن کا زخم مندمل نہیں ہو پاتا کہ دوسرا آپریشن کرانا پڑ جاتا ہے۔ مگر یہ سب باتیں وہ ہنسی مذاق میں کر رہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنی تمام بیماریوں کو مات دے دے گا اور اسی طرح پھر سیفما کے پلیٹ فارم پر بنیادی انسانی حقوق اور پاکستان کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی جدوجہد میں شامل ہو جا ئے گا۔ صحافت میں آنے کے بعد اسکی ساری زندگی اخبار نویسوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے ہی تو گزری تھی۔ وہ پاکستان کے ان چند صحافیوں میں سے تھا جنہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں مگر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ ان اصولوں کی خاطر ہی اس نے پاکستانی صحافیوں کے مسلمہ رہنما منہاج برنا کی مخالفت بھی مول لی۔ برنا صاحب نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے ساتھ جب ایپنک بنائی تواس نے اس کی مخالفت کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اخباروں میں کام کرنے والے تمام کارکنوں کو حقوق دلانے کی بات تو درست ہے، بلاشبہ آپ کی نیت نیک ہے، لیکن اس طرح ہماری جدوجہد کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا اور کسی کو بھی اس کے حقوق نہیں مل پائیں گے اور اس کی بات ہی صحیح ثابت ہو ئی۔ ایک دو سال تو ایسا ویج بورڈ ایوارڈ آیا جس پر چند اخباروں کے مالکوں نے عمل کیا لیکن پھر صحافیوں کی تنخواہوں کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا اور آخر اخبارنویس مالکوں کے رحم و کرم پر ہی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
وہ بہاولپور سے ملتان آیا تھا۔ ایسو سی ایٹیڈ پریس آف پاکستان کا منیجر ہوا، اس سے پہلے بھی اے پی پی کے کئی منیجر ملتان آئے اور کئی برس وہاں رہے۔ مگر وہ آیا تو ایسا لگا جیسے یہ تو خدا جانے کب سے اپنا جانا پہچانا ہے۔ اس کا مزاج ہی ایسا تھا کہ پہلی ہی ملاقات میں ہر ایک کو اپنا دوست بنا لیتا تھا۔ ہماری قربت اتنی بڑھی کہ فلم دیکھنے جا رہے ہیں تو ساتھ ساتھ، کسی محفل میں جا رہے ہیں تو ساتھ ساتھ۔ پرانی فلموں کے گانے سن رہے ہیں تو اس کے گھر میں۔ ملتان میں پریس کلب کی بنیاد پڑی تو افضل خاں کی ہی محنت سے۔ ابھی کلب کی اپنی عمارت نہیں بنی تھی۔ امریکہ اور روس میں سردجنگ جا ری تھی۔ افضل خاں نے پریس کلب کے لئے کسی طرح امریکی سفارت خانے سے فلم کا پروجیکٹر حاصل کرلیا۔ لیکن اس پروجیکٹر پر جو پہلی فلمیں دکھائی گئیں، وہ روس کے ساتھی ملک چیکوسلاواکیہ کی تھیں۔ یہ اور بات کہ ان دنوں چیکوسلاواکیہ میں دوبچیک کی لبرل حکومت آ گئی تھی اور دنیا بھر میں اس کی فلموں کی دھوم تھی۔ آج ملتان میں جو پریس کلب کی عمارت نظر آ رہی ہے وہ بھی افضل خاں کی کو ششوں کا نتیجہ ہی ہے۔ ان دنوں ملتان کے کمشنر محمد محسن تھے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ معراج خالد تھے۔ کمشنر سے کلب کے لئے زمین حا صل کی گئی اور معراج خالد کی حکومت سے عمارت کی تعمیر کے لئے سرمایہ لیا گیا۔ اس طرح ملتان کے اخبار والوں کو کلب مل گیا۔ اس مقصد کے لئے افضل خاں کے ساتھیوں میں احمد خاں درانی اور رفیق اللہ خاں تھے۔ مجھے کلب کا صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔ اس کلب میں وہ محفل جمتی تھی کہ باہر سے آنے والا ہر ادیب اور سیاست داں سب سے پہلے اس کلب کا ہی رخ کرتا تھا۔ اس کلب کا افتتاح حنیف رامے نے کیا، جو اس وقت تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن چکے تھے۔
افضل خاں کی وجہ سے ہی مجھے بھی مشرقی پاکستان جانے کا موقع مل گیا تھا۔ وہاں پی ایف یو جے کا کنونشن تھا۔ افضل خاں اس تنظیم کا سر گرم کارکن تھا۔ ملتان سے جو دو نمائندے وہا ں گئے ان میں افضل خاں کے ساتھ میں بھی تھا۔ یہ1967تھا۔پاکستان میں ایوب خاں کی حکومت تھی اور سارا مشرقی پاکستان ایوب خاں اور مغربی پاکستان کے خلاف نظر آ تا تھا۔ ہم نے دو ہفتے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس صوبے کا سفر کیا اور پہلی مرتبہ بنگال دیکھا۔ اس سفر نے مجھے وہ افسانے دیئے جو اس علاقے اور اس علاقے کے باشندوں کی روح تک پہنچنے والے اردو کے پہلے افسانے ہیں۔ لیکن افضل خاں نے مجھے کچھ اور افسانے بھی تو دیئے۔ ہماری فوج نے اس علاقے میں آ پریشن شروع کیا تو افضل خاں وہاں اے پی پی کا نمائندہ تھا۔ اس نے اپنی آ نکھوں سے جو کچھ دیکھا اسے اس خط میں محفوظ کیا جو اس نے مجھے لکھا۔ یہ ایک ہی خط تھاجو وہاں سے وہ لکھ پایا۔ اس کے بعد انقلاب آگیا۔اور افضل واپس مغربی پاکستان آگیا۔ اس خط کی بنا پر ہی میں نے افسانہ ’’اپنی اپنی سچائیاں‘‘ لکھا۔یہ افسانہ فیض صاحب کو اتنا پسند آ یا کہ انہوں نے اس کا انگریزی تر جمہ کر اکے فلسطینیوں کے رسالےLotus میں چھاپا۔ اس وقت فیض صاحب بیروت میں اس رسالے کے ایڈیٹر تھے۔ یہ افسانہ افضل ہی کی دین ہے۔ افضل اسلام آباد میںاے پی پی کا ڈائریکٹر جنرل رہا۔واشنگٹن میں اے پی پی کا نمائندہ رہا، واپس آیااور ریٹائر ہوا توخلیج کے ایک اخبار کے لئے کام کر تا رہا۔ وہ خالی نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ کچھ نہ کچھ کرتا ہی رہتا تھا۔ ضیا ء الحق نے صحا فیوں کی تنظیم میں جو پھوٹ ڈلوائی تھی اس کے بعد اس تنظیم کی سر گر میاں ماند پڑ گئی تھیں۔ پھر حالات بھی بدل گئے تھے۔ اب افضل سیفما کی سر گر میوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ لاہور آتا تو ملاقات ہو تی۔ لیکن ٹیلی فون کا رابطہ تو ہمارا روزانہ کا رابطہ تھا۔ اور یہ رابطہ ملک میں ہو نے والی سیاسی اونچ نیچ کے حوالے سے ہی ہوتا تھا۔ جو بھی خبر اس تک پہنچتی وہ شام کو میرے حوالے کر دی جا تی تھی۔ جب اس کے دل نے اسے تنگ کرنا شروع کیا تب بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔اپنی سر گر میاں جا ری رکھیں۔ مگر کب تک۔ ایک آپریشن کے بعد دوسرے آ پریشن اور پھر آپریشن ہی آپریشن نے اس کا جسم چھلنی کر دیا۔ اور آ خر اس کا وہ دل جو دوستوں کے لئے ہمیشہ محبت اور خلوص سے بھرا رہتا تھااس کا ساتھ چھوڑ گیا۔ اس کی چھوٹی بیٹی ثو بیہ نے مجھے اس کی وہ تصویر دکھانے کی کوشش کی جوآ خری دنوں میں امریکہ کے اسپتال میں اس کی بڑی بیٹی مو نا نے کھینچی تھی۔مگر میں نے وہ تصویر دیکھنے سے انکار کر دیا۔ میں ہنستے مسکراتے اور بلند آواز میں بحث کرتے افضل کو یاد رکھنا چا ہتا ہوں۔ اسپتال کے بستر پر پڑے افضل کی نہیں۔ آج کے اخباری کارکنوں کے لئے شاید افضل خاں ایک ناما نوس سا نام ہو۔لیکن یہی افضل خاں ہے جو منہاج بر نا،نثار عثمانی اور اسرار احمد جیسے جی دار صحافی رہنمائوں کے ساتھ اخباری کا رکنوں کے محسن کے طور پر یاد رکھا جا ئے گا۔

تازہ ترین