• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ حکومت کے سابق وزیر اعظم جن کا کروفر ابھی ویسا ہی ہے، تب تھا جب وہ وزیر اعظم ہوا کرتے تھے جب انہیں سزا سنا دی گئی تھی تب وہ یہی فریادی صدا لگایا کرتے تھے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اب جبکہ عدالت عظمیٰ نے فیصلہ جاری کردیا ہے تو ان کی فریاد الزامات میں تبدیل ہوچکی ہے وہ بار ہا ہر جگہ یہی جملہ دہراتے سنائی دیتے ہیں کہ پانچ افراد نے بائیس کروڑ عوام کے نمائندے کو باہر کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اب تک مسند اقتدار پر بیٹھنے والا کوئی بھی حکمران کبھی بھی بائیس کروڑ عوام کا نمائندہ نہیں رہا لیکن ہر کامیابی کے بعد ہر کامیاب امیدوار نعرہ یہی لگاتا ہے کہ وہ اور صرف وہ ہی ملک و قوم کا واحد نمائندہ ہے جسے قوم نے منتخب کیا حالانکہ وہ پڑنے والے ووٹوں میں اکثریت حاصل کر کے کامیاب ہوتا ہے اور کامیابی اسے کیسے نصیب ہوتی ہے وہ الگ معاملہ ہے کبھی بھی کامیاب ہونے والے کے مد مقابل نے نہ تو اپنی ہار تسلیم کی اور نہ ہی انتخابات کو صاف و شفاف مانا ہے اعتراض در اعتراض ہوتے رہتے ہیں لیکن کامیاب ہونے والے میاں صاحب ہمیشہ یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ انہیں وطن عزیز کی کل آبادی نے منتخب کیا ہے وہ بائیس کروڑ عوام کے نمائندے ہیں کیا ایسا کہنا حقیقت پر مبنی ہوتا ہے یا سراسر جھوٹ پر۔
میاں نواز شریف آپ جس جس طرح نعرے بازی کر رہے ہیں کیا اس سے آپ کا آپ کی حکومت جس کو اس وقت بھی اقتدار حاصل ہے کا وقار بلند ہو رہا ہے، کیا آپ کی حکمرانی میں حکومتی اداروں کا وقار آپ خود مجروح نہیں کر رہے، آپ کے بعد آنے والے یا آپ کے ساتھ آنے جانے والے کیا سبق حاصل کریں گے؟ پہلے ہی سیاسی اخلاقیات کا دامن تار تار کرنے میںآپ کے حریف کیا کم تھے کہ آپ بھی اسی صف میں کھڑے ہوگئے ،جب حکمران اور تمام ہی اہل سیاست اخلاق باختہ ہو چکے ہوں تو پھر ان سے اسی زبان میں بات کرنا چاہیے جو وہ سمجھتے ہوں تہذیب و شائستگی اور سیاست ایک میان میں دو تلواروں کی مانند ہیں یا تو سیاست کرلو یا تہذیب کی چادر اوڑھ کر سو جائو پھر سیاست کا کیا کام۔ کہنے والے اب یہ بھی کہنے سے نہیں چوک رہے کہ تہذیب و شائستگی تو کوٹھوں پر ناچتی ہے آپ کس تہذیب کی بات کرتے ہیں کیا پاکستان کی سیاست میں آپ کوئی ایک نام بتا سکتے ہیں جو کسی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہو، پڑھا لکھا ہو اب تو اسمبلی میں آنا اور اقتدار کی دوڑ میں حصہ یقیناً سرمایہ داروں، وڈیروں، جاہل اہل ثروت کا کام ہے سیاست تو اب خالص تجارتی پیمانوں پر کی جاتی ہے جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا، پیسہ پھینک تماشا دیکھ اب نہ الیکشن میں حصہ لیا نہ ہی کامیابی کے بعد اقتدار کی کسی سیڑھی پر چڑھنا نہ قابلیت کا نہ تجربے کا کمال ہے، کمال ہے تو سارا مال کا کمال ہے آپ کتنا مال لگاتے ہیں اور کتنا کماتے ہیں سیاست کے حمام میں تو سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ میاں نواز شریف کیا واقعی نام کے شریف ہیں یا کام کے بھی شریف ہیں یہ بات ایک سیاست دان سے ایک نمائندے نے پوچھی تو وہ صاحب ہنس کر بولے ہم سب ہی اندھے ہیں جو اپنے سے آگے والے اندھے کو گرا کر اس پر سے گزرنا چاہتے ہیں بس یہی دوڑ لگی ہوئی ہے کہاں کا انصاف کہاں کا اخلاق کہاں کی تہذیب یہ سب تو عوام کو بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں۔ یہاں تو آج کل ہر طرف سیاست دان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ملک و قوم تو بعد کی بات ہے اگر ہم رہیں گے تو سیاست رہے گی قوم کا کیا ہے قوم تو صرف تماشہ دیکھتی رہی ہے وہ یونہی تماشہ دیکھتی رہے گی ورنہ اگر عوام چاہیں اور پچاس فیصد بھی ووٹ کی طاقت استعمال کرلی جائے تو سب کے چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ اتوار 17دسمبر کو میاں نواز شریف واپس جاتی امرا پہنچ چکے ہیں آتے ہی بلکہ لندن سے رخصتی کے وقت سے ہی انہوں نے حسب معمول عدلیہ کی دوغلی یا دہری انصاف پالیسی کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے اور اب جبکہ عمران خان کی اہلیت اور انکے جنرل سیکرٹری کی نا اہلیت کا فیصلہ بھی آچکا ہے تو بقول میاں صاحب کے عدالت نے درست فیصلہ صادر نہیں کیا بلکہ عمران خان کے حق میں فیصلہ دے کر نا انصافی کی مرتکب ہوگئی ہے حالانکہ اگر میاں صاحب اور انکے مشیران قانونی اور سیاسی غور کریں تو بات آئینے کی مانند صاف ہے میاں صاحب نے اپنی آف شور کمپنی چھپائی تھی اس کا کہیں ذکر نہیں کیا وہ تو پاناما نے بھانڈا پھوڑا تھا جبکہ عمران خان نے اپنی آف شور کمپنی خود ظاہر کی میاں صاحب کو عدلیہ نے اپنے اثاثے یا آف شور کمپنی یا لندن کی جائیداد پر نا اہل نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے گرد گھیرا تنگ کیا اور اپنی ذات کو اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے اپنے بچوں کو پھنسا دیا جس میں ان کی کمپنی میں ملازمت بلا تنخواہ کی بات انہوں نے خود قانونی موشگافیوں میں آکر کھولی جس سے وہ پھنس گئے حالانکہ پوری قوم اور تمام انکے ساتھی سمجھ رہے تھے کہ پانامہ کیس میاں صاحب کو لے بیٹھے گا لیکن توقعات کے بر خلاف فیصلہ اقامہ یا بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کی وجہ سے وہ نا اہل ہوئے اگر انہیں اس کمپنی سے تنخواہ نہیں لینی تھی تو اس کا معاہدہ ہی کیوں کیا گیا تنخواہ کا نا لینا مسئلہ نہیں بنا بلکہ تنخواہ کا معاہدہ جس کا ذکر نہیں کیا وجہ بنا جبکہ عمران خان نا اہلی کیس میں کوئی ایسا معاملہ سامنے نہیں آیا کہ جسے عمران خان نے چھپایا ہو بلکہ چھپے ہوئے معاملے کو بھی خود ہی ظاہر کیا گیا جو قانون کے تقاضے کے مطابق تھے اس لئے وہ بچ گئے اور نا اہل نہیں ہوسکے میاں صاحب اور انکے حامیوں کی توقع کے بر خلاف چونکہ فیصلہ آیا ہے اسلئے وہ ان کے حلق سے نہیں اتر رہا اور حالانکہ عمران خان کیساتھ جہانگیر ترین صاحب کو اسلئے نا اہل کیا گیا کہ انہوں نے کچھ نہ کچھ چھپایا تھا ۔ عدالتوں پر انگلی اٹھا کر آپ اپنی حکومت کی کمزوری اور نا اہلی کو ظاہر کر رہے ہیں انصاف کی چھڑی آپ پر لگی تو نا انصافی اور اگر کے مخالف کو لگ جاتی تو عین انصاف کہلاتا آپ خود اپنی حکومت کو کیوں گندا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس سے آپ کو آنے والے الیکشن میں مدد نہیں ملے گی بلکہ الٹا آپکا نقصان ہوگا لوگوں کو موقع نہ دیں کہ وہ کہنے لگیں چور مچائے شور۔

تازہ ترین