• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند سالوں سے اسلام آباد کی ایک ایسی مسجد میں تراویح پڑھنے کا موقع مل رہا ہے جہاں قرآن سنانے کے لیے پاکستان کے ایک بہترین قاری عبدالسلام صاحب کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اللہ کے کلام کو اس خوبصورتی سے پڑھا جاتا ہے کہ بڑی تعداد میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں۔ نماز تراویح کے بعد پڑھے گئے کلام کے چیدہ چیدہ نکات پر درس بھی دیا جاتا ہے۔ ایک دن میرے پاس بیٹھے ہوئے نمازی نے مجھے پہچانتے ہوئے کہا کہ اُنہیں بڑی خوشی ہوئی کہ میرا ایک مخصوص مسلک سے تعلق ہے۔ میں نے اُس نمازی کو جواب دیا کہ میں ایک مسلمان اور صرف مسلمان ہوں اور صرف اسی حوالے سے پہچانے جانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلمان پیدا کیا مگر ہم فرقوں میں بٹ گئے۔ ہمارے لئے مسلک، دین سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے۔ لوگوں سے پوچھیں تو کہتے ہیں میں شیعہ میں سنّی میں بریلوی میں دیوبندی میں اہل حدیث اور نجانے کیا کیا…!! مسلک اور فرقہ نے مسلمانیت کو اُسی طرح پیچھے چھوڑ دیا جیسے علاقائیت اور عصبیت نے پاکستانیت کو کہیں گم کر دیا۔ ان رُجحانات نے ہمیں اسلام سے بہت دور کر دیا اور فتنہ کے ایک ایسے دور میں دھکیل دیا جہاں مسلمان مسلمان کو ”اسلام کے نام پر“ قتل کر رہا ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی مقدس ترین 27ویں شب کو پی اے ایف کامرہ میں حملہ کیا جاتا ہے اور حملہ کرنے والے تمام کے تمام مسلمان۔ 27ویں روزہ کے دن مانسہرہ کے قریب 20سے زیادہ افراد کو بسوں سے اُتار کر محض شیعہ ہونے پر مار دیا جاتا ہے۔ یہ تمام لوگ اپنے اپنے گھر عید الفطر منانے جا رہے تھے جو سب مسلمانوں کا دینی تہوار ہے۔ علاقائیت عصبیت اور فرقہ واریت کے نام پر اسی نوعیت کی قتل و غارت بلوچستان کراچی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں ایک معمول بن چکی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک گروہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعے قتل کرنے کو ”جہاد“ کا نام دیتا ہے۔ کراچی میں اگر مہاجر پٹھان اور سندھی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں تو حکومتی پالیسیوں سے نالاں بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند صوبے میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو محض اسلئے قتل کر رہے ہیں کیونکہ اُن کا تعلق کسی دوسری نسل یا علاقے سے ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کو چن چن کر اسلئے مارا جا رہا ہے کیونکہ اُن کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔ تحریک طالبان پاکستان جنرل مشرف اور موجودہ حکومت کی امریکا نواز پالیسیوں کی سزا ”اسلام کے نام پر“ بننے والے پاکستان اسکے اداروں اور عوام کو دے رہی ہے اور اس سلسلے میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جا چکا ہے۔ گویا بہانہ کوئی بھی ہو، پاکستان میں مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور یہ سلسلہ روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اِس قتل و غارت میں شامل گروہ پشیمان ہیں نہ نادم اسکے باوجود کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے اِس سلسلے میں احکامات انتہائی سخت اور واضح ہیں۔ اپنے رسول اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کو دیکھیں تو ان سب کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا اور شیعہ، سنّی، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث یا کسی دوسرے مسلک کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ قرآن اور حدیث ایک مسلمان کو اللہ اور رسول کے بتائے گئے رستے پر چلنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے باوجود ہم فرقوں اور مسلکوں میں اس بری طرح بٹ گئے کہ اللہ اور رسول کی بات کو پیچھے چھوڑ دیا۔
پاکستان کا حال دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم شاید اُسی حالت کو پہنچ چکے ہیں جس کے بارے میں رسول پاک نے تنبیہ کی تھی کہ میرے بعد کفر میں نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (صحیح بخاری و مسلم)۔اسلام مسلمان تو کیا غیر مسلموں کو بھی ناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو قتل کرنا تو بہت بڑے گناہ کی بات ہے۔ مگر یہاں اسلام اور جہاد کے نام پر کلمہ گو لوگوں کے جسموں کے پرخچے اُڑا دیئے جاتے ہیں حالانکہ کلمہ پڑھ لینے کے بعد اس کلمہ گو کی اس قدر تعظیم ہے کہ اس کلمہ کے بعد اگر کوئی کفر یا شرک کا ارتکاب بھی کر دے تو اُسے قتل نہیں کیا جاسکتا سوائے اسکے کہ وہ مرتد ہو جائے یا اُسے قتل کے بدلے قتل کیا جائے یا پھر اگر وہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے یا پھر اگر کوئی ناموس رسالت کی بے حرمتی کا مرتکب ہو جائے مگر ان تمام صورتوں میں یہ قتل عام لوگ نہیں بلکہ ریاست کریگی۔ ایک حدیث کے مطابق کچھ لوگ نبی پاک کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کے کان میں آ کر کچھ کہا تو آپ نے فرمایا جاؤ اُسے قتل کر دو۔ جب اُس آدمی کو لے جانے لگے تو آپ نے اُس سے پوچھا کلمہ کی گواہی دیتے ہو؟ اُس نے کہا جی تو آپ نے فرمایا: اس کا راستہ چھوڑ دو مجھے لوگوں سے قتال کا تب تک حکم ہے جب تک وہ لاالٰہ الااللہ نہ کہہ دیں۔ سو جب وہ یہ کہہ دیں تو پھر اُنکے خون اور مال میرے اوپر حرام ہیں (سنن ابن ماجہ)۔ایک صحابی روایت کرتے ہیں: میں نے کہا اے رسول اگر کسی کافر سے میرا ٹکراؤ ہو جائے اور وہ میرا ایک ہاتھ تلوار سے اُڑا دے اور اسکے بعد جب وہ میرے وار کے نیچے آئے تو کسی درخت کی اوٹ میں ہو کر کہے کہ میں مسلمان ہوا تو کیا میں اُسے قتل کر دوں؟ آپ نے جواب دیا: اُسے مت قتل کرو ورنہ تم قتل کرنے کے بعد اسکی جگہ (کافر) اور وہ تمہارے اُسے قتل کرنے سے پہلے تمہاری جگہ (مسلم) ہو جائیگا (روایت مسلم)۔ایک اور روایت کے مطابق فرات بن حیان جو ابوسفیان کے جاسوس تھے کو گرفتار کرکے قتل کیلئے لے جایا جا رہا تھا کہ اُنہوں نے اپنے ایک واقف انصاری کو دیکھ کر کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ نبی نے اُنکی بات کو قبول کیا اور اُنہیں چھوڑ دیا۔ فرات بن حیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسا جان بچانے کیلئے کیا تھا مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اُنکے دل میں داخل کر دیا اور وہ شرفِ صحابیت سے نوازے گئے اور اسی پر اُنکی موت ہوئی۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اُنکے رشتہ داروں میں سے ایک شخص نے ایک جنگ کے دوران ایک کافر کو اپنے نرغے میں لیا مگر جب وہ وار کرنے لگے تو اُس نے کلمہ پڑھ لیا مگر اُس نے اُسے پھر بھی قتل کر دیا۔ وہ شخص رسول کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول میں ہلاک ہو گیا۔ رسول نے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ تم نے اُس کا دل شق کرکے دیکھا تھا کہ اُس نے دل سے کلمہ نہیں پڑھا؟ پھر یہ شخص فوت ہو گیا ہم نے اُس کو دفن کیا تو دوسرے دن اُسکی لاش قبر سے باہر تھی۔ ہم نے کہا کہ شاید دُشمن نے ایسا کیا ہو دوبارہ دفن کیا اور نوخیز لڑکوں کو پہرے پر مقرر کردیا۔ مگر صبح پھر اُسکی لاش قبر سے باہر ملی۔ ہم نے جب نبی کو یہ بتایا تو آپ نے فرمایا: زمین بڑے بڑے شریر آدمیوں کو قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ نے یہ ارادہ کیا کہ تمھیں لا الٰہ الا اللہ کی حرمت دکھائیں (سنن ابن ماجہ)۔ سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور نبی اس قدر ناراض ہوئے کہ اسامہ کہتے ہیں یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں آج مسلمان ہوا ہوتا (صحیح بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث کے مطابق رسول کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: تو (کعبہ) کتنا پاکیزہ ہے، تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے، تو اور تیری حرمت کس قدر عظیم ہے۔ اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ایک مومن اُسکے مال اور خون کی حرمت اللہ کے ہاں تیری حرمت سے بہت عظیم ہے اور ہم مومن کے متعلق خیر کا ہی گمان کرینگے (ابن ماجہ و صحیح الترغیب)۔ حدیث شفاعت میں ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ کہیں گے ”اے محمد اپنا سر اُٹھایئے بات کیجئے، سنی جائے گی سوال کیجئے جواب دیا جائیگا سفارش کیجئے قبول کی جائیگی۔ محمد جواب دینگے یارب میری اُمّت میری اُمّت۔ اللہ فرمائیں گے جس کے دل میں رائی کے دانے کے کم تر سے کم تر سے کم تر حصہ کے برابر بھی ایمان ہے اُسے آگ سے نکال لیجئے (صحیح بخاری)۔ (کالم میں دیے گئے احادیث کے حوالوں کے لیے میں معلّم عبدالجبار بلال صاحب کا مشکور ہوں اور اُن کے لیے جزائے خیر کا دعا گو بھی)۔قارئین جنگ کو میری طرف سے دلی عید مبارک ۔ (قارئین کرام کو میری طرف سے دلی عید مبارک)
تازہ ترین