• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ زمین کو وینس جیسے سیارے میں بدل دے گا۔ جب اس کا یہ بیان سامنے آیا تو میری توجہ فوراً اس کے بیان کی طرف مبذول ہوگئی۔ وہ شخص کون ہے؟ اس کی کہانی کیا ہے؟ آیئے جانتے ہیں۔ والد نے اسے میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنیکا مشورہ دیا لیکن اسے ریاضی، فزکس، کیمسٹری میں رغبت تھی۔ وجوہات جاننے، سیکھنے کی سرشت کے باعث اسے کلاس میں آئن اسٹائن پکارا جانے لگا۔ کسی مظہر کو سیکھ لینے کے بعد وہ اس پر اکتفا نہ کرتا تھا بلکہ مزید جاننے کی خواہش اس میں مچلنے لگتی تھی۔ وہ روایتی طریقہ درس و تدریس سے انتہائی نالاں تھا کہ وہ تحقیق کی جستجو کو نہیں ابھارتا تھا۔ اپنی ابتدائی تعلیمی ناکامیوں کی وجہ وہ اسی فرسودہ نظام تعلیم کو قرار دیتا رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اسے استاد کی بہترین توجہ حاصل ہوگئی اور تعلیمی کامیابیوں کی وجہ وہ اس توجہ کو ہی قرار دیتا ہے۔ خدا کا انسانوں سے کام لینے کا اپنا ہی فلسفہ اور طریقہ ہے۔ ہم اس کے فیصلوں کی گہرائی اور مضمرات جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ 1963میں وہ بغیر کسی ظاہری وجہ اچانک سیڑھیوں سے گر پڑا۔ اس کے بعد زبان لڑ کھڑانے لگی چپو چلا نا دوبھر ہو گیا۔ یونیورسٹی سے چھٹیاں لیں اور گھر چلا گیا۔ اہل خانہ نے تمام میڈیکل ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹروں کےخوفناک انکشاف نے اس کے والدین کو جھنجوڑ ڈالا کہ ان کا21 سالہ نوجوان موٹر نیورون نامی لاعلاج ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ اس بیماری میں مریض بولنے، چلنے، سانس لینے اور نگلنے جیسے افعال سے بتدریج معذور ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسانی معدے میں خوراک سے پیدا ہونے والی توانائی برقی رو کی شکل میں دماغ کے گرڈ اسٹیشن کو منتقل ہوتی ہے۔ جہاں سے یہ برقی رو ریڑھ کی ہڈی کے راستے عصبی تاروں کے ذریعے تمام اعضا کو کام کرنے کاحکم جاری کرتی ہے۔ اس طرح اعصاب اور اعضا کی صحت کا نظام قائم رہتا ہے اگر کسی وجہ سےاس پیچیدہ ترسیلی نظام کی زنجیر ٹوٹ جائے تو متعلقہ اعصاب آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہے تو قومہ کی سی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں نے پیش گوئی کی کہ وہ نوجوان صرف دو سال تک ہی زندہ رہ پائے گا۔ اب اسکے پاس دو ہی راستے تھے مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوکر گم گشتہ کہانی بن جائے یا پھر ہمت کی شمشیر تھام کر جانب منزل بڑھے۔ زندگی سے طوفان کی طرح لڑنے میں یقین رکھنے والے اس کیپری کورن نوجوان کےجذبے جوان تھے اور اس نے اپنی بیماری سے لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ نئےسفر کےآغاز میںچلنے میں دشواری آئی تو بیساکھیوں کو دوست بنا لیا۔ لکھنے میں دقت ہوئی تو کبھی نہ چھوڑنے کیلئے ہمت کا دامن تھامتے ہوئے آنکھوں کی مدد سے تعلیم و تحقیق کا سلسلہ جاری رکھا اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔معذوری کی بنیاد پر مدد کی طلب سے نفرت تھی لہٰذا ہر قسم کی مدد لینے سے منع کردیا۔ 1970میں قوت گویائی صفر ہوگئی تو ایک اور شخص نے1986 میں اسے لکھنے کیلئے کمپیوٹر پروگرام کی شکل میں نئی زندگی عطا کی جس کی مدد سے وہ 15الفاظ فی منٹ لکھ سکتا تھا۔2005آیا تو وہ ٹائپ کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم گیا۔ وہ پھر بھی مایوس نہ ہوا۔اب وہ ایک نیا اسٹیفن ہاکنگ بن چکا تھا۔ اب اس نے اپنے گالوں کے مسلز کے ذریعے ابلاغ کرنا شروع کیا لیکن فی لفظ ایک منٹ رفتار تھی جس پر وہ مطمئن نہ تھا۔ بعد ازاں ایک اور شخص نےاس معذور کے ابلاغ کیلئے سوئفٹ کی پروگرام بنا ڈالا ۔2009میں اس کی اپنی وہیل چیئر چلانے کی صلاحیت بھی چلی گئی۔ تمام تر معذوریوں کے باوجود اس نے 12کتابیں لکھیں۔ آخری کتاب 2013میں ’’مائی بریف ہسٹری‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس کی لکھی گئی کتابوں پر 14فلمیں اور ٹی وی سیریز بنائی گئیں۔ سائنس کے شعبے میں گراں قدر خدمات سر انجام دینے پر اسے متعدد اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب قوت گویائی اس کے پاس تھی تب اس نے کہا تھا خدا کا وجود نہیں۔ سبحان اللہ اسی رب کائنات نے اپنے منکر سے ایک ایک کرکے اس کے بیشتر حواس خمسہ واپس لے لئے۔ اب اسی منکر خدا سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نےپیش گوئی کی ہے کہ بہت جلد صناعی اس قدر ترقی پالے گی کہ انسان اپنی نقل تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیگا اور وہ کام کرپائے گا جو انسان نہیں کرپاتا۔ ایک طرف کافر معاشرے کے کافر افراد انسانی فلاح پر مبنی مصنوعی ذہانت کے منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ دوسری طرف ہم مسلمان تحفظ مذہب کے نام پر اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کیلئے قتل کے فتوے جاری کررہے ہیں۔

تازہ ترین