• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے وقتوں کے گمراہ کن تصورات میں سے ایک یہ ہے کہ منظم بدعنوانی کیخلاف سپریم کورٹ آخری قلعہ ہے ۔قانون کی تلوار سے مسلح جج حضرات اُن خون آشام جونکوں کے سر اُڑاسکتے ہیں جو ملک کا خون چوس رہی ہیں ۔موسم سرما کی فارغ شاموں میں آتش دان کے قریب بیٹھ کر سننے اور سنانے کیلئے دیومالائی داستانوں کا جواب نہیں۔ لیکن حقائق کی دنیا الگ ہوتی ہے ۔
گزشتہ ہفتے سامنے آنے وا لے فیصلوں سے ظاہر ہوا کہ ایسے بے بنیاد تصورات کا پھیلائو جتنا زیادہ ہوگا، عدلیہ کی حقیقی فعالیت اتنی ہی متاثر ہوگی۔ عدلیہ کا حقیقی کام انصاف کی فراہمی اور ممکنہ آئینی بحران کا تدارک کرنا ہوتاہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں ہماری سوچ حقیقت سے دور ہے ۔ ہم اسے ایک ایسی طاقت سمجھتے ہیں جو قومی دولت کی نگہبانی سے لے کر جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوئوں تک کی سرکوبی سمیت ، ہر کام کرسکتی ہے ۔ اس سوچ نے بدعنوانی کے خلاف لڑائی جیتنا اگر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور بنا دیا ہے ۔ بلاشبہ عدلیہ کو سیاست کی آلودہ دلدل میں دھکیلا جارہا ہے۔ اس دلدل میں کسی کا دامن اجلا نہیں ، یہاں لگنے دالے داغ بمشکل ہی اترتے ہیں۔ بے رحم سیاست کی سنگلاخ وادی میں ساکھ، عزت اور احترام کا ہر آبگینہ چٹخ جاتا ہے ۔ یہاں عدلیہ خطرناک حد تک پارلیمنٹ کے مقابلے پر کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ پارلیمنٹ محسوس کرتی ہے کہ اُس کے اختیارات چھینے جارہے ہیں۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران سامنے آنے والے دو مشہور فیصلوں نے ان بے بنیاد، من گھڑت تصورات کو حقیقت کا آئینہ دکھا دیا۔ پاناما فیصلے کو ’’بدعنوانی سے پاک پاکستان ‘‘ کی طرف ایک عظیم چھلانگ قرار دیا گیا تھا، لیکن اس سے بدعنوانی کے تدارک کی بحث ایک انچ آگے نہ بڑھی ۔ نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے لئے اقامے کا سہارا لینااسی حقیقت کا ادراک تھا۔ پانچ رکنی بنچ کو مبینہ بدعنوانی کا کھوج لگاتے ہوئے مشکلات کا احساس ہوگیا تھا۔ چھپائے گئے عقربی خزانے کی تلاش ایک کٹھن جوکھم تھا، چنانچہ اُنہیں ایک وزیر ِاعظم کو گھر بھیجنے کے لئے ٹیکنکل بنیاد پر ایک ایسی وجہ تلاش کرنا پڑی کہ اس نوعیت کے کیسزمیں دیگر بنچ جس کا حوالہ نہ دیتے۔
’’انسداد ِ بدعنوانی کی عظیم مہم ‘‘ کے خلاف مہم میں جسٹس کھوسہ بنچ کو اسی نیب کا سہارا لیناپڑا جس پر محترم نے خود بھی تنقید کی تھی ۔ اب یہ وہی نیب ہے جس پر پاکستان تحریک انصاف کیچڑ اچھال رہی ہے کیونکہ نیب کی ’’ملی بھگت ‘‘ کی وجہ سے شہباز شریف حدیبیہ پیپرملز کیس سے بچ گئے ۔کھوسہ بنچ کے فیصلے نے پانا ما کیس ریفرنسز نیب میں بھجوائے ۔ ان کے ہمرا ہ ایک عمل درآمد بنچ بھی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ چھ ماہ کی طے شدہ مدت میں ان کا فیصلہ ہوجائے ۔ لیکن جب یہ تمام مہم صرف شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ کرتی دکھائی دے گی تو اس کا متنازع ہوجانا لازمی امر ہوگا۔ اس کے نتائج کو چیلنج کیا جائے گا۔ مزید براں،بدعنوانی کے بڑے بڑے کیسز سے پاناما فیصلے کی روشنی میں نمٹنا بذات ِخود ناممکن ہے ۔ چونکہ اس فیصلے کو کسی اور کیس پر منطبق نہیں کیا جاسکتا، اس لئے بدعنوانی کے خلاف وسیع تر لڑائی میں اس کی کاٹ بیکار ہے۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری، جہانگیر خان ترین کی نااہلی (گرچہ کیس کی نوعیت مختلف تھی) پر غور کریں۔ اس کیس میں بھی نواز شریف نااہلی کیس کے آرٹیکل کو استعمال کیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر جسٹس ثاقب نثار بنچ کو مسٹر ترین کے خلاف فیصلہ دینے کے لئے انتہائی ٹیکنکل بنیادوں کا سہارا لینا پڑا۔
تاہم مذکورہ بنچ وسیع پیمانے پر کی گئی مالیاتی بے ضابطگیوں کو گرفت میں نہ لاسکا، جیسا کہ سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مشکوک معاملات کو طے کرنا۔ کچھ بہت ہی تحیر آمیز تفصیل بتاتی ہے کہ ٹیکس قوانین میں موجود جھول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح ٹیکس چوری کی گئی ، کس طرح لیز کے مشکوک معاہدوں کے ذریعے دولت کمائی گئی ،اور کس طرح بنکوں نے اُن کمپنیوں کے قرضے معاف کردئیے جنہیں بنکوں سے قرضے حاصل کرنے کے لئے ہی قائم کیا گیا تھا۔ لیکن ثاقب نثار بنچ کو فیصلے کے لئے اس وسیع شاہراہ سے گریز کرتے ہوئے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دینے کے لئے اتنے تنگ راستے پر چلنا پڑا کہ پی ٹی آئی کے ترجمان نے بھی اسے ’’حساب برابر کرنے ‘‘والا فیصلہ قرا ر دے ڈالا ۔ گویا اُن کے نزدیک بنچ نے یہ فیصلہ سناتے وقت توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی بنچ نے عمران خان کو بری کردیا ۔ یہاں ٹیکس اور نامزدگی کے کاعذات میں ایک سمندر پار کمپنی جیسے اثاثے ظاہر کرنے کے لئے طے کردہ معیار اُس سے مختلف تھا جو کھوسہ بنچ نے نواز شریف اور اُن کی بیٹی ، مریم نواز کے لئے طے کیاتھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ہی عدالت کے دو بنچ اس پر اتفاق نہ کرسکے کہ دومقدمات میں اثا ثے ظاہر کرنے کے لئے کیا معیار اپنا یاجائے ۔ اور یہاں میڈیا اس کارروائی کو بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ایک عظیم سنگ میل قرار دے رہا ہے ۔ تیسرا فیصلہ حدیبیہ پیپرملز کا ہے جس میں بالکل مختلف جوڈیشل طرز عمل دیکھنے میں آیا۔ یہاں فاضل جج صاحبان نے پاناما جے آئی ٹی کی رپورٹ ، جو بہت سے دلوں کی دھڑکن بن چکی تھی ، کو درخور اعتنا نہ گردانا۔ یہ رپورٹ نیب کو منی لانڈرنگ کے الزامات کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیتی ہے ۔
ان دونوں مقدمات نے انتظامیہ اور گورننس کو مفلوج کیے رکھا، سیاسی کشمکش کی حدت بڑھائی، عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھی۔دوسال پر محیط ، ایک سو سماعتوں اور چھ بنچوں (تین تو صر ف پاناما مقدمے کے لئے تشکیل دئیے گئے )کی عرق ریزی کے بعد ان کا نتیجہ کیا نکلا؟ بدعنوانی کے خلاف جنگ میںکون سا مورچہ فتح کیا گیا ؟ کون سی چوٹی سر ہوئی ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان مقدمات نے عدالت ِعالیہ کو تنقید کی زد میں لاکھڑا کیا ۔ نواز شریف کی نااہلی اور عمران خان کی بریت نے ن لیگ، اور ترین کی نااہلی اور حدیبیہ اپیل کے فیصلے نے پی ٹی آئی کے ہاتھ میں مزید ترکش تھما دئیے ۔
پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ’’بدعنوانی کے خلاف جہاد‘‘ کو جواز بنا کر قانون سازی کے عمل سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ سیاسی حلقوں کے ذاتی مفادات نے بدعنوانی پر ہونے والی بحث کوعدلیہ کے مقابلے میں پارلیمنٹ کے استحقاق کی طرف موڑ دیا۔ اس دوران صوبے یا تو بدعنوانی کے خلاف پرانے غیر موثر طریق کار سے چمٹے رہے (جیسا کہ پنجاب اور بلوچستان)، یا اُنھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نظام کو اپنے موافق بنا لیا ، جیسا کہ سندھ ۔ کوشش کی گئی کہ نئے نظام کی رسائی اشرافیہ کی بدعنوانی تک نہ ہونے پائے ۔ جہاں تک خیبر پختونخوا کا تعلق ہے تو وہ عمران خان کے ہر قیمت پر وزیر اعظم بننے کے خبط کا یرغمال ہے ۔ چنانچہ وہاں بھی بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی۔ خیبر پختونخوا کا غیر فعال احتساب کمیشن اس اہم میدان میں پی ٹی آئی کی افسوسناک کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
بہرحال پاکستان کو بدعنوانی سے پاک کرنے کی سپریم کورٹ کی کوشش کے کچھ نتائج سامنے آئے ہیں۔ لیکن ان کا تعلق سیاسی اسکور بورڈ اورمیڈیا میں جاری ڈرامے سے ہے ۔ اس ڈرامے کے کردار اس تصور کو ارزاں کرتے رہتے ہیں کہ جج حضرات ایک عظیم قومی فریضہ سرانجا م دے رہے ہیں۔ یہ کردار چاہتے ہیں کہ ایسے اساطیری تصورات کی چمک ماند نہ پڑنے پائے ۔ وہ سوچتے ہیں کہ نگاہوں کو چندھیا دینے والی یہ چمک ہی اُ ن کے سیاسی عزائم کے حصول کوممکن بنائے گی۔ وہ حقیقت اور عوام کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔
اُن کے خیال میں سپریم کورٹ کی بدعنوانی کے خلاف جنگ ہی اُن کے سیاسی اسکور برابر کرسکتی ہے ۔ یہی کچھ اسٹیبلشمنٹ پر صادر آتا ہے ۔ ججوں اور سیاست دانوں کے درمیان ہونے والی جنگ میں اسٹیبلشمنٹ کا ہر صورت فائدہ ہی فائدہ ہے ۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی حالیہ مداخلت نے پاکستان میں بدعنوانی کے موضوع پر ہونے والی بحث کو الجھا دیا ہے ۔ اس کی وجہ سے سیاسی تنائو بڑھ گیا، اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے قانون سازی کے امکانات دم توڑ گئے ۔ اب آنے والے برسوں میں اس کے لئے کوئی اتفاق رائے پید اہونا کسی معجزے سے کم نہ ہوگا۔ سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنا پرانا کردار نبھاتے ہوئے سپریم کورٹ کو الجھا دیا ہے ۔ اس اصطبل کی صفائی قانون کے جھاڑو سے نہیں ہونی تھی ۔ اور پھر پاکستان میں کسی ’صفائی ‘ کی کوئی مثال نہیں۔ ہاں صفایا ہوتابار ہا دکھائی دیا ہے ۔ بلاشبہ ملک میں بدعنوانی کا دور دورہ ہے ، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں، یہ منظم ہے ۔ یہ زمین، بینکنگ کے نظام ، سمندر پار اکائونٹس ، کمپنیوں ، صوابدیدی اختیارات،خفیہ فنڈز، تعمیراتی ٹھیکوںاوررئیل اسٹیٹ کے تال میل کے ساتھ پھلتی پھولتی ہے ۔ اور لوٹ مارکرنیو الے ان طاقتور ہاتھوں کو روکنے کے لئے موثر قانون موجود نہیں ۔ بدعنوانی کی بہت سی تہیں ہیں۔ اس کے لئے نظام میں بہت سے رخنے موجود ہیں۔ اس کی روک تھام میں بہت سی خامیاں آڑے آتی ہیں۔ ایک سراب سے گزرنے کے بعد دوسرا سراب ہماری نگاہوں کو جکڑ لیتا ہے ۔ تازہ ترین سراب یہ ہے کہ عدالت’’ بدعنوانی سے پاک نیا پاکستان‘‘ تخلیق کررہی ہے ۔ جج حضرات ہمیں ایک ایماندار نظام فراہم کریں گے ۔
اس سراب کو حقیقت کا جامہ پہنانے والے وہی ہیں جو اس بہتی گنگا کے کنارے جمے بیٹھے ہیں۔ اُنہیں کوئی خوف ہے نہ فکر۔ وہ جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ بدعنوانی کے ہر مقدمے کو ہاتھ میں نہیں لے سکتی ۔ اس وقت بدعنوانی کے مقدمات پر سیاست کا اس قدر غلبہ ہے کہ یہ جائزہ لینا ممکن ہی نہیں رہا کہ ہوشربا بدعنوانی کا تعلق انفرادی فعل سے زیادہ نظام کی خرابیوں سے ہے ۔ مثل مشہور ہے تباہی کا راستہ خوشنماارادوں سے عبارت ہے ۔ ہمارے ہاں یہ راستہ مقبول فیصلوں سے عبارت ہے ۔ افراد پر توجہ ہے لیکن اصل معاملہ نگاہوں سے اوجھل ہے۔

تازہ ترین