• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ہر جگہ گاؤں کا بابا رحمت چھایا ہوا ہے اس سے قبل معروف افسانہ نگار اشفاق احمد خاں کے روایتی بابا کا شہرہ خوب رہا ہے جو بابا بابا کرتے خود بابا بن گئے تھے۔ ایک روز ہم نے اُن سے کہا ’’اشفاق صاحب! آپ کا احترام سر آنکھوں پر ہے لیکن یہ جو آپ کا ان پڑھ بابا، بات بے بات، دخل در معقولات کرتا ہے اس سے ہماری نہیں بنتی بلکہ ایک طرح کی چڑ ہے اس سے۔ ماضی کی روایتی اونچ نیچ کا اسیر دقیانوسی سوچ کا حامل آپ کا یہ بابا، اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں اور سائنٹفک اپروچ سے قطعی نابلد ہے۔ دوسروں کی سننے یا سمجھنے کی بجائے آپ کا یہ بابا ہر وقت اپنی ہانکے جا رہا ہوتا ہے۔ یہ بابا دلیل اور شعور ہی کا نہیں جدید تعلیم کا بھی ویری ہے، میں آپ سے جب بھی ملنا چاہتا ہوں یہ خواہ مخواہ بیچ میں آکر بیٹھ جاتا ہے۔ تمامتر فکری و نظری اختلافات کے باوجود اشفاق صاحب میں ایک خوبی تھی کہ وہ اپنے مخاطب کو عزت بہت دیتے تھے فوراً بولے ’’کوئی بات نہیں ہم اپنے بابے کو ابھی کہے دیتے ہیں کہ بابا جی ہم نے ریحان میاں سے خصوصی گفتگو کرنی ہے لہٰذا آپ باہر تشریف رکھیں‘‘۔
اشفاق صاحب چونکہ یورپ میں بھی کافی مدت قیام پذیر رہ چکے تھے ہماری دانست میں یہ شاید اُسی کا اثر تھا کہ اُن کی روایتی مشرقی دانش نے بابے کو ضد یا جھوٹی انا کا مسئلہ نہیں بنایا ۔کوئی بھی انسان جن حالات یا سوچوں کے زیر اثر پروان چڑھتا ہے لازمی بات ہے اُس کا ضمیر اُن کی مطابقت میں تشکیل پاتا ہے۔ جس طرح ایک ہندو کا ضمیر سری رام چندر جی سے نفرت کرنے والے کو قابلِ محبت خیال نہیں کرے گا اسی طرح ایک مسلمان کا ضمیر اپنے مذہب مخالفین کو توہین کا مرتکب خیال کرے گا لیکن جس کی تربیت انسان نوازی کی آزادانہ فضا میں ہوئی ہو گی اُس کا ضمیر تنگناؤں یا منافرتوں سے بلند تر ہو جائے گا۔ لہٰذا اپنی ذہنی و نظری پسماندگی کو ضمیر کے لبادے میں چھپا کر آئینی و قانونی تقاضوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی اجازت کسی کو نہیں ہونی چاہیے ۔یہ جو روز خودکش حملے کرتے ہوئے بے گناہ و معصوم انسانوں کو خون میں نہلاتے ہیں وہ بھی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔
بات گاؤں کے بابا رحمت سے شروع ہوئی تھی جو کتنا ہی نیک اور سادہ دل ہے ۔ہمیں لفظ ’’بابا‘‘ سے بھی ایک نوع کی ہمدردی ہے یہ اتنا قابلِ احترام لفظ ہے جسے متنازع بنا کر روایتی دقیانوسی اپروچ کے ساتھ جوڑنے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ ہم نے ایک آرٹیکل لکھا تھا ’’جہالت:دہشت گردی کی ماں‘‘ ہمیں فوراً احساس ہوا کہ لفظ ’’ماں‘‘ اتنا محترم ہے کہ اسے کسی بُرے تخیل کے ساتھ جوڑنا از خود گناہ کبیرہ سے کم نہیں اس لیے فوراً بدل کر ’’ماں‘‘ کی جگہ ’’جڑ‘‘ لکھ دیا۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ ’’بابا‘‘ جی کے ساتھ بھی کیا جانا چاہئے اس سے اگلی بات درویش چونکہ خود ایک دیہاتی ہے اس لیے واضح کرنا چاہتا ہے کہ گاؤں میں بابا رحمت کے ساتھ ’’چوہدری حشمت‘‘ بھی رہتا ہے کچھ اس کردار پر بھی اظہارِخیال ہونا چاہئے تھا۔
جدید تعلیم کے زیراثر کوئی نوجوان شہر سے پڑھ کر گاؤں میں واپس آتا ہے اگر یہاں وہ اونچ نیچ کے خلاف سماجی و معاشی مساوات یا جمہوری اقدار کی بات کرتا ہے تو چوہدری حشمت گاؤں میں ایسے باشعور انسان کا جینا دوبھر کر دیتا ہے وہ در پردہ بابا رحمت پر بھی پورا اثر رکھتا ہے یوں صاحبِ شعور کا حقہ پانی بند کروا دیتا ہے۔ پہلے مانی پہلوان سے اس کے خلاف خوب زہر اگلواتا ہے جھوٹے سچے پروپیگنڈے کے لیے چوہدری حشمت کو خوشامدی حواریوں کی کوئی کمی نہیں اس سلسلے میں چھیدا پٹواری سب سے آگے ہے چوہدری حشمت دانش شریف کی فصل کو راتوں رات آگ بھی لگوا سکتا ہے کسی مزارع کی فصل جلوا کر اس کا الزام دانش شریف پر لگواتے ہوئے بابا رحمت کے ذریعے اسے گاؤں بدر بھی کروا سکتا ہے۔ خود ہی اس پر حملہ کروا کر مرہم پٹی کا بندوبست کرتے ہوئے آٹا چاول بھی اس کے گھر بھجوا دیتاہے۔
چوہدری حشمت ڈنڈی پٹی ہی نہیں جدی پشتی چالاک ہوشیار باوسیلہ شخص ہے گاجر اور چھڑی کا ہی نہیں حالات زیادہ خراب ہو جائیں تو بندوق کا کھلا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا لیکن اُس کا عمومی رویہ گاؤں کے بڑے کا اور سب کے ہمدرد مہربان کا ہوتا ہے۔ ظاہری لچک دکھانی ہو تو دانش شریف کے ڈیرے پر پہنچ کر جدید جمہوری اقدار کے حوالے سے اظہار خیال کرتے یوں رطب اللسان ہوتا ہے کہ گویا پورے گاؤں میں اس سے زیادہ گاؤں کا ہمدرد اور وارث کوئی پیدا نہیں ہوا یہ قانون، پنچائت، تعلیم اور جدت افکار کا گویا سر پنچ ہے سب گاؤں والے اس کی جے جے کریں کوئی اس کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہ کرے کوئی اس کے قبضہ گروپوں یا شب خون مارنے والے گروہوں کے متعلق بات کرنے کا سوچے بھی نہیں۔ رہ گیا گاؤں کا مولوی تو یہ دوسروں کو تو عذابِ قبر و حشر سے خوب ڈراتا ہے لیکن اکثر و بیشتر چوہدری حشمت کے ڈیرے پر اس کی چلم بھرتے پایا گیا ہے۔ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے بعد یہ چوہدری صاحب کے پاؤں دبانے کے لیے بھی بخوشی تیار رہتا ہے۔ بلا سنیارا بہت اچھا ہے اگرچہ کبھی کبھی میرے ساتھ ہوتا ہے لیکن بالعموم اپنے ابا کے ڈر سے چوہدری حشمت کی حمایت کر جاتا ہے۔
یہ درویش جتنی مدت گاؤں میں رہا اس کی کبھی چوہدری حشمت یا اس کے خود سر بچوں سے نہیں بنی چوہدری حشمت کی خود پسندی اور نظریہ جبر پر مبنی سوچ اسے ہمیشہ دکھی کرتی رہی۔ اُس نے گاؤں کے لوگوں کو جب بھی جدید تعلیم دینے اور فکری زاویہ بلند کرنے کی کاوش کی تو چوہدری صاحب کے زیر اثر مولوی نے اس کے خلاف فتاویٰ کی بھرمار کر دی پہلے گمراہ فاسق اور بدعتی کہتے تھے پھر گستاخ اور مرتد تک قرار دے ڈالا اور بتایا کہ اس کی صرف ایک ہی سزا ہے اور توبہ بھی قبول نہیں پنچایت کے نام پر کمی بابا رحمت نے بھی نہیں چھوڑی۔ خوشی مراثی نے تو پروپیگنڈے کی حد کر دی کونسا الزام ہے جو اس سیدھے سادے انسان پر نہیں دھرا۔ غنڈہ گردی میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ مانی پہلوان نے پوری کر دی۔
ان تمامتر زیادتیوں اور بے انصافیوں کے باوجود اس شریف نے بھی یہ قسم کھالی ہے کہ چاہے جو بھی قیمت چکانی پڑے اب کے میں نہ تو گاؤں چھوڑوں گا اور نہ ہی خاموش بیٹھوں گا۔ وہ بچے بچیاں جو سمجھدار ہیں اور اسکول پڑھنے جاتے ہیں ان کے ذہنوں میں آگہی و شعور ڈالتے ہوئے چوہدری حشمت کی تمام تر حرکتوں سے انہیں آگاہ کروں گا ان میں سے ہر ایک کے پاس اب انٹرنیٹ اور ٹچ فون ہے چھیدا پٹواری یا خوشی مراثی جتنی مرضی جعلی پوسٹیں تیار کر لیں میں دانش شریف بھی اصلیت واضح کرنے سے باز نہیں رہوں گا۔ اپنے گاؤں والے تمام دوستوں کو کہہ دیاہے کہ پچھلی غلطیوں کی معافی دیں اب کبھی آپ لوگوں کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا حالات کتنے بھی خراب ہو گئے میرا جینا مرنا آپ عوام کے ساتھ ہو گا۔

تازہ ترین