• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’پاکستان کا نظام و نصاب تعلیم ایک ہونا چاہئے۔ نوجوانوں کو دینی و عصری تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا بہترین قومی خدمت ہے۔ مدرسوں کو یونیورسٹیوں میں اور یونیورسٹیوں کو مدرسوں میں ضم کردیا جائے تو کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘‘ قارئین! پس منظر کے طورپر یاد رکھیں کہ ایک عرصے تک ہر قسم کے علوم و فنون کی تعلیم ایک ہی درسگاہ میں ہوتی تھی۔ دینی علوم اور دنیاوی فنون میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ان تعلیمی اداروں سے ابوریحان البیرونی اور اُن جیسے دوسرے عظیم فلاسفر، حکما اور سائنسدان پیدا ہوئے تو وہ بھی علمِ حدیث، علمِ تفسیر، عربی زبان، فقہ اور اُصولِ فقہ کا بھی وافر علم رکھتے تھے۔ اُس زمانے کے مسلمانوں میں عظیم فلاسفر، سائنسدان اور اطباء بھی تھے۔ جغرافیہ، ریاضی، علم ہیئت اور فلکیات کے ماہرین بھی تھے جو دینی علوم بھی جانتے تھے۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے دور میں نظامِ تعلیم وہی چل رہا تھا۔ یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی، اُس زمانے کی سائنس اور دوسرے جدید دنیاوی علوم و فنون ہندوستان کے تمام مدارس میں رائج تھے۔ اُس وقت کے علماء ان تمام مضامین انجینئرنگ، علم الہندسہ، حساب، الجبرا، جیومیٹری، علم ہیئت اور فلکیات، جغرافیہ اور طب کو اپنے دینی مدارس میں پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جب انگریز تاجروں کے روپ میں برصغیر آیا تو اس نے مختلف حیلے بہانوں سے ہندوستان کی زمینوں پر قبضے کرنا شروع کردئیے۔ برصغیر پر قابض ہوگئے توایسی تدبیریں شروع کردیں جس سے مسلمان اپنے دین کو فراموش کرکے ایک غلام قوم کے طور پر اُن کے تابع ہوجائیں۔ انگریزوں کو ہندوئوں سے کوئی خاص خطرہ نہیں تھا۔ انہیں سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں سے تھا، کیونکہ یہ انگریز حکومت کو دل سے قبول کرنے والی قوم نہ تھی۔ مسلمانوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے برصغیر کے تعلیمی اداروں کو بے اثر کردینا اس کی سیاسی ضرورت تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ ہندوستان کے سرکاری دفاتر سے فارسی زبان ختم کرکے انگریزی زبان مسلط کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس ملک کے باشندے سرکاری دفاتر میں پہنچتے تو وہ سرکار کی نظروں میں اَن پڑھ تھے۔ چاہے وہ کتنے ہی اونچے درجے کے تعلیم یافتہ ہوں، مگر انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے سرکاری اداروں میں وہ جاہل قرار دیدئیے گئے تھے۔ جبکہ ہندوئوں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کیلئے اپنے حربے استعمال کرنے شروع کردئیے۔ انگریزوں نے بھی مسلمانوں کو طرح طرح کے لالچ دے کر اُن کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا شروع کیا۔ ان حالات میں اس بات کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں اس دورِ محکومی میں اسلامی علوم وفنون، قرآن و حدیث، فقہ، اُصولِ فقہ، تفسیر اور تمام اسلامی علوم کی وہ میراث جو مدارس کے ذریعے صدیوںسے محفوظ چلی آرہی تھی وہ ہمارے ہاتھوں سے نہ جاتی رہے۔ اس وقت علماء نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے سوچا ہم کم ازکم اسلامی علوم کو اور اسلامی اقتدار کے زمانے میں علم و حکمت کے جو دُوسرے شعبے الجبرا، جیومیٹری، علم ہیئت، فلکیات، جغرافیہ، منطق، فلسفہ، عربی شعر و ادب اور طب وغیرہ ان سب کو تو محفوظ کر ہی لیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا۔عین اُسی زمانے میں جب دارالعلوم دیوبند قائم ہورہا تھا، مولانا قاسم نانوتویؒ کے ایک ہم سبق سرسیّد احمد خان نے علی گڑھ میں تعلیمی ادارہ قائم کیا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کو سرکاری اداروں میں ملا زمتیں نہیں مل رہی ہیں اور ہندو خوب ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔ مسلمانوں کی معاشی و سیاسی موت واقع ہوجانے کا اندیشہ ہے، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی سیاست و معیشت کے تحفظ کیلئے علی گڑھ کا ادارہ قائم کیا، تاکہ وہاں انگریزوں کے لائے ہوئے نصابِ تعلیم کو رائج کرکے کم از کم مسلمانوں کی سیاست اور معیشت تو محفوظ کردی جائے۔ دیوبند کا مشن تھا مسلمانوں کے دِین کا تحفظ اور علی گڑھ کے اس تعلیمی ادارے کا مقصد تھا مسلمانوں کی دنیا کا تحفظ، دونوں کی نیتیں اپنی اپنی جگہ ٹھیک تھیں، لیکن مشکل یہ ہوئی کہ پہلے یہ دونوں کام ایک ہی قسم کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتے تھے، اب یہ کام تقسیم ہوگئے۔ علی گڑھ کا نصاب و نظام اور طریقہ کار الگ اور دیوبند کا نصاب و نظام اور طریقۂ کار جُدا۔ دین اور دنیا میں تفریق ہوئی۔ تعلیم کے دونوں نظاموں میں خلیج پیدا ہوگئی۔ اپنے اپنے مقصد میں دونوں ادارے کامیاب ہوئے۔ دیوبند نے علومِ نبوت کی ایسی حفاظت کی کہ جب آزادی ملی اور پاکستان قائم ہوا تو وہ علومِ نبوت جوں کے توں اسی طرح محفوظ تھے جیسے انگریزوں کے آنے سے پہلے محفوظ تھے۔ پاکستان وجود میں آیا تو علماء کے سامنے سب سے بڑا مقصد یہی تھا کہ یہاں اسلامی حکومت کے شایانِ شان نظام قائم ہو، اسلامی معاشرہ قائم ہو۔ نظامِ حکومت بھی اسلامی ہو، نظامِ تعلیم بھی اسلامی ہو۔ پورے ملک کے نظامِ تعلیم کے طور پر نہ علی گڑھ کا نظامِ تعلیم کافی تھا نہ ہی دیوبند کا نظامِ تعلیم۔ یہ دونوں ایسے نظام نہیں تھے کہ ان میں سے کسی ایک کو جوں کا توں پاکستان کے سب تعلیمی اداروں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاری کردیا جائے۔ ان حضرات کا نظریہ یہ تھا کہ پاکستان میںایسے نظامِ تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دین و دنیا کی تفریق نہ ہو۔ ایک خاص مرحلے تک مشترک نصابِ تعلیم چلے۔ اس میں ضروری دینی مسائل اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم بھی قومی اور مادری زبان میں ہو اور عصری علوم و فنون بھی ساتھ ساتھ چلیں۔ میٹرک کے بعد جس طریقے سے ہر علم و فن کیلئے اسپیشلائزیشن ہوتا ہے،ا س نظام میں بھی ہو۔ کوئی اسٹوڈنٹ عصری علوم میں آگے بڑھے توکوئی دینی علوم میں، کوئی حدیث میں، کوئی جغرافیہ میں، کوئی انجینئرنگ میں، کوئی طب میں،لیکن ایک لیول تک تعلیم سب کی مشترک ہو اور آگے سائنس، ٹیکنالوجی، جغرافیہ، ریاضی، انجینئرنگ اور طب وغیرہ کی تمام تعلیم بھی اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی ہو، تعلیمی اداروں کا ماحول مسلمانوں کے شایانِ شان ہو۔

تازہ ترین