• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتے جلتے حادثات کا بار بار رونما ہونا پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بدترین پہلوئوں میں سے ایک ہے۔ آمریت کا آسیب خا ک ہو کر ہر بار جانے کیسے پھر سے نمودار ہوجاتا ہے۔ ہر منتخب اورغیر منتخب وزیراعظم اپنے پانچ سال مکمل کئے بغیر گھر بھیج دیا جاتا ہے اور دہشت گرد اپنی ٹوٹی کمر کے ساتھ ہر بار پھر سے وار کردیتا ہے۔ اتوار کی صبح کوئٹہ میں گرجا گھر پر حملہ اِس سادہ ترین تجزئیے کی تازہ ترین مثال ہے۔
قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف اوپر تلے آپریشنز ہوتے رہے اور ا ِن میں اَن گنت دہشت گردجہنم رسید کردئیے گئے۔ ان کی باقیات تک اگرچہ تباہ کردی گئیں لیکن دہشت کا یہ طاقتور آسیب ہر باراپنے خلاف سرگرم تمام قوتوں کا منہ چڑاتا آج بھی کسی نہ کسی انداز میں اپنے خاص اہداف پر کامیابی سے حملے کررہا ہے۔ یہ معمہ اتناعجیب ہے کہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا!
بیسویں صدی میں نظریاتی مزاحمت اور منظم دہشت گردی کے تسلسل سے جڑی بہت سی مثالیں استفادے کے لئے دستیاب ہیں۔ خاص طور پر وسطی و جنوبی امریکا، جنوب مغربی یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے خطوں میں خونریز مزاحمت اور دہشت گردی کے طویل ادوار، عوامی سطح پر سیاسی سوچ کی درستی ، جمہوری اقدار اور مہذب طرز سیاست کے سبب اختتام پذیر ہوگئے۔ البتہ افغانستان ، عراق اورمشرق وسطی کے معاملات شایددرست، جمہوری اور مہذب سوچ کے فقدان کے سبب آج بھی حل طلب ہیں ۔پاکستان کا معاملہ شاید کچھ ایسا ہی ہے ۔
کسی جرم میں چاہے ریاست ملوث ہویا معاشرتی عناصر ، اکثریت کی سیاسی درستی کے بغیر اس کا مکمل قلع قمع کم و بیش ناممکن ہے ۔دوسرے لفظوں میں ریاستی جرائم سے عوامی طاقت کے ذریعے اورقانون سے بالاتر عوامی عناصر سے ریاستی طاقت کے ذریعے بڑی حد تک نمٹا جا سکتا ہے۔ لیکن دیرپا کامیابی کے لئے فکری سطح پر صحیح ہونا ریاست اور عوام دونوں کے لئے ناگزیر ہے ۔
پاکستان میں دہشت گردی کا تسلسل اس تکلیف دہ حقیقت کا واضح عندیہ ہے کہ عوام کی اکثریت کے دلوں میں انتہا پسندوں کے لئے ہمدردی کسی نہ کسی صورت اور انداز میں روز اول سے موجود ہے۔ البتہ اس سچائی کو شعوری سطح پر ماننے کے لئے فی الحال کوئی تیار نہیں۔گزشتہ رو ز سوشل میڈیا پر سرگرم ایک معروف ٹی وی اینکراپنے پیغام میں افسوس کا اظہار کررہی تھیں کہ کچھ بد بختوں نے سانحہ کوئٹہ پر اُنہیں مسرت کے پیغامات بھیجے ہیں ۔
بلا شبہ ہمارے آس پاس ایسے عناصر عموما ًقابل ذکر تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو اپنے سے مختلف مذاہب، مسالک اور لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والوں پرجان لیوا حملوں کو ڈھکے چھپے لفظوں میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ اکثر اپنے رٹے رٹائے جملوں کی الٹ پھیر کے ذریعے کمال مہارت کیساتھ حملہ آوروں کیلئے ہمدردی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔آبادی کا بڑا حصہ اگر ایسی سوچ رکھتا ہو تو ایک ہزار فوجی آپریشنز بھی ان دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لہٰذا دہشت گردی اور اس سے جڑے دیگر جرائم کا موثر قلع قمع مسلح کارروائیوں کیساتھ ساتھ اکثریت کی سوچ میں تعمیری تبدیلیوں کی صورت میں ہی سو فیصد ممکن ہے۔
المیہ یہ کہ مذہب، مسلک اور لسانی بنیادوں پر مستقل بڑھتی رہنے والی یہ تقسیم اب تنگ نظری اور نفرت کے فروغ کا سب سے بڑا پیش خیمہ ہے۔ ہرمدرسہ اپنے فقہ کی تعلیم دیتا ہے اور طلبہ کو سکھاتا ہے کہ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد اگرمکمل کافر یا واجب القتل نہیں تو گمراہ ضرورہے۔ یہی طلبہ جب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں لازماً اپنے ہی فقہ کی مساجد تلاش کرناہوتی ہیں۔ یوں معاملہ بڑھتے بڑھتے مساجد پر قبضوں کی مستقل جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔
بدقسمتی یہ کہ ان بچو ں کوچند طاقتور عناصر اپنے اپنے مقاصد کے لئے جب چاہیں استعمال کرلیتے ہیں۔ کراچی کے سینمائوں میں لگائی جانے والی آگ بھلا کون بھول سکتا ہے۔ خاص طور پر رواں صورتحال میں اِس ’’افرادی قوت‘‘ کااستعمال اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ یہ خاص حلقوں کے خلاف آواز اٹھانے پرمخصوص ٹی وی چینلز کو ہر وقت نشانہ بنانے پر تلی رہتی ہے۔
اس ماحول میں عام گفتگو اورزبان میں شائستگی کے فقدان کا عالم یہ ہے کہ بہت سے ناگوار الفا ظ ، مرکبات، محاورے اور تاثرات بے دریغ اوربلا روک ٹوک استعمال کئے جاتے ہیں۔ تقاریر میں دشنام طرازی اور الزاما ت کی بہتات بد تہذیبی کی تمام حدود پار کرچکی ہے۔ مثال کے طور پر’’ یہودی ذہنیت،‘‘ ’’ہندوئوانہ رسم و رواج‘‘ اور’’ یہود و ہنود کی مشترکہ سازش‘‘ جیسے مرکّبات یا تاثرات میںبلا شبہ زیادہ تر مقامات پر تو نہیں لیکن چند افراد کی زبان سے چند مقامات پر نفرت اور بدتہذیبی کاگماں ہوتا ہے۔ لیکن کردار اورسو چ کے اخلاقی انحطاط کا عالم یہ ہے کہ ایسی نفرت اور بدتہذیبی کا کوئی بھی برملا اظہار اب کسی کے لئے بھی کو ئی ناگوار بات نہیں رہی۔
اکثریت کی سوچ میں بنیادی تبدیلی دہشت گردی اور دیگر جرائم کی موثر روک تھا م کے لئے کیوں ضروری ہے ، اس بات کو ماضی کی ایک مثال سے با آسانی سمجھاجاسکتا ہے۔کوئی بائیس برس پہلے کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے سی ویو ایونیو(Sea View Avenue) پرغیر شادی شدہ جوڑوں کو ہراساں کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کردیں اور یوں چند ہی گھنٹوں میں سی ویو پر شکایتی کیمپ لگادیئے گئے۔ صورتحال یقیناً بہتر ہوگئی اور ہراساں کرنے کے واقعات کم و بیش ختم ہوگئے۔ لیکن کیمپ ہٹتے ہی معاملہ پھر پہلے جیسا ہوگیا۔
سنتے ہیں کہ اس واقعے سے برسوں پہلے اور اس کے بعد بھی ایسے احکامات جاری ہوتے رہے ہیں لیکن پولس اہلکارو ںکی یہ حرکتیں ہمیشہ جاری رہیں ۔کیوں کہ جوانی میں یہا ںبغیر نکا ح گھومنے والے جوڑے اب غیرت مند اور معتبر والدین بن چکے ہیں اور اب انہی غیرت مندوں کی شکایت پر بگڑے ہوئے بچوں اور بچیوں کو پولیس پارٹیاں تفریحی مقامات سے دور ہٹ جانے پر مجبور کردیتی ہیں یا انہیں تنگ کرتی رہتی ہیں ۔ظاہر ہے اگرمعاشرے کا معتبر اور غیرت مندطبقہ پولیس اہلکاروں کے ساتھ ہو تو انہیں بھلاکسی بھی کارروائی سے کون روک سکتا ہے.
برسوں بیت گئے لیکن کراچی میں دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں جار ی رہی اور پولیس اہل کارآج بھی تفریحی مقامات پرنوجوانو ں کو ہراساں کرتے پھرتے ہیں ۔لیکن اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟ آخر کارآبادی کا ایک بڑا حصہ انتہا پسندوں سے ایک خاص اور خاموش ہمدردی رکھتا ہے اور نوجوانوں کو روزانہ ہراساں کرنے والے اہلکاروں کو تفریح کی غر ض سے آئے ہوئے ’’بیٹیوں‘‘ والے معتبر شہریوں کی بھرپور حمایت حاصل رہتی ہے۔ دہشت گرد اور ہراساں کرنے والا بدمعاش پولیس اہلکار کسی بھی صورت اکثریت کی خوشنودی کے بغیر زیادہ عرصے تک سرگرم نہیں رہ سکتا۔

تازہ ترین