• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے دفتر میں ہر دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی پمفلٹ پھینک جاتا ہے جسے دیکھنے یا پڑھنے کا نہ کبھی موقع ملتا ہے اور نہ ہی میں نے کبھی کوشش کی ،لیکن پھر میں نے محسوس کیا کہ پھینکے جانے والے ایک پمفلٹ سے ملتا جلتا ایک بڑا سا اسٹیکر میرے گیٹ پر چسپاں ہے کچھ غور کیا تو معلوم ہوا کہ کوئی صاحب ہیں جو ویب سائٹ بنانے کا کام کرتے ہیں اور انہوںنے پمفلٹ پر یہ لکھ رکھا تھا کہ انتہائی سستے ریٹ پر اپنی ویب سائٹ بنوائیں، میں نے اس اسٹیکر کو نظر انداز کرتے ہوئے اسٹیکر اتار کر پھینک دیا لیکن کچھ روز بعد وہاں ایک اسٹیکر کی جگہ پوری ایک لائن انہیںا سٹیکرز کی چسپاں تھی ۔مجھے کچھ غصہ بھی آیا لیکن درگزر کرگیا لیکن اس اسٹیکر پہ لکھا فون نمبر میں نے نوٹ کیا اور ایک روز انہیں فون کیا کہ یوں دفاتر اور دیواروں پر اسٹیکرز چسپاں کرنے سے بدصورتی پیدا ہوتی ہے ، براہِ مہربانی اس سے اجتناب کریں، جواب میںفون اٹینڈ کرنے والی لڑکی نے معذرت کی اور بتایا کہ اس مقصد کیلئے ہم نے پارٹ ٹائم لڑکے رکھے ہوئے ہیں، یہ ان کی غفلت ہے ،آئندہ آپ کو یہ شکایت نہیں ہوگی، مجھے اس شکایت سے تو نجات مل گئی لیکن سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اب وہی پمفلٹ ڈیزائن ہوا مجھے واٹس ایپ پر ملنا شروع ہوگیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے ویب سائٹ ڈیزائنگ کے پیغامات بھی موصول ہونا شروع ہوگئے میں سمجھ گیا کہ میں نے اپنے موبائل سے فون کرنے کی جو غلطی کی تھی وہ بھگتنا پڑ رہی ہے ،کیونکہ میرا نمبر نوٹ کرکے اب مارکیٹنگ کے اس طریقے کو آزمانا شروع کردیا تھا ، ایک روز تنگ آ کر میں نے فون کیا تو بجائے کہ میری بات یا شکایت سنی جاتی آگے سے ریکارڈڈ ٹیپ کی طرح ویب سائٹ بنانے کی آفرز شروع کردی گئیں۔ میں نے انہیں کہاکہ آپ کے جو صاحب بھی ویب سائٹ ڈیزائن کرتے ہیں انہیں میرے آفس بھیج دیں اگلے روز ایک صاحب وقت لے کر میرے آفس آگئے میں نے ان صاحب سے شکایت کی اور انہیں کہاکہ یہ جو مارکیٹنگ کا طریقہ آپ نے اپنایاہے اس سے لوگ بہت تنگ ہوتے ہیں آپ براہ ِمہربانی مجھے تنگ نہ کیا کریں، وہ صاحب بولے جی یہ میرا کام نہیں ہے میں تو آپ کو ویب سائٹ کے بارے میں بتاسکتا ہوں ، اور پھر وہ بولتا چلا گیا کہ وہ کس طرح پانچ ہزار سے پچاس ہزار تک ویب سائٹ بنا رہے ہیں اور وہ اب تک نہ صرف تین ہزار سے زائدہ ویب سائٹس بنا چکے ہیں بلکہ بہت سی ویب سائٹس کو اپ ڈیٹ اور مینج بھی کرتے ہیں، ان صاحب نے اس خوبصورتی سے میری شکایت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ آپ کی شکایت پہنچادی جائے گی اور اپنی مارکیٹنگ بھی کردی۔ ان صاحب نے میری نرم گوئی سے فائدہ اٹھایا تھا ، میرا موڈ بھی اب شکایت سے تبدیل ہوکر صحافی کی کھو ج میں تبدیل ہوگیا تھا ۔میں نے ان صاحب سے پوچھا کہ ان کے پاس زیادہ تر کس قسم کی ویب سائٹس ڈیزائن ہونے کیلئے آتی ہیں تو انہوںنے بتایا کہ ہر قسم کی ویب سائٹ بننے آتی ہیں زیادہ تر لوگ تھوڑا ہی عرصہ چلا پاتے ہیں لیکن جو ویب سائٹ ڈیزائننگ سے لیکر انہیں اپ ڈیٹ کرنے کا کام بھی ہمیں ہی دیتے ہیں وہ چلتی رہتی ہیں اور ہمارے پاس زیادہ تر ویب سائٹس وہ ہیں جو ٹی وی ٹاک شوز میں سے نکالی جانے والی گفتگو کے کلپس یا مصالحے دار خبروں کو اپ لوڈ کرنے کی ہیں، بس کلپس یا خبر پر سرخی ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ دیکھنے یا پڑھنے پر مجبور ہوجائیں میں ان صاحب کی بات سمجھ گیا تھا میں نےان سے سوال کیا کہ بعض کلپس یا ایسی خبریں بھی اپ لوڈ کی جاتی ہیں جو حقائق کے منافی ہوتی ہیں یا کلپس ایسے ہوتے ہیں جن سے گفتگو کے اصل تاثر سے اس کے منفی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے کیونکہ میں نے کئی اصل ٹاک شوز دیکھے ہوتے ہیں لیکن اس کے لگائے جانے والے کلپس اس گفتگو کی روح کے برعکس ہوتے ہیں وہ صاحب چہکتے ہوئے بولے یہی تو کمال فن ہے جس کی وجہ سے بہت زیادہ ہٹس ہوتی ہیں۔اس وقت سوشل میڈیا پر یہ ’’کمال فن‘‘ ایک ایسی وبا بن گیا ہے جس سے درست اطلاعات کی بجائے ایسی اطلاعات اپ لوڈ کی جاتی ہیں جو عوام الناس کو مس گائیڈ کرتی ہیں ، گالم گلوچ تو سوشل میڈیا پر چلتی ہی رہتی ہیں لیکن اطلاعات کو توڑ موڑ کر اور حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے سے زیادہ نفرت اور بداعتمادی پیدا ہوتی ہے لیکن قانون ہونے کے باوجود ایسے لوگوں کو پکڑا یا انہیں باز رکھنا مشکل ہورہا ہے ، لیکن یہ منفی استعمال ختم کرنا ضروری ہے ۔

تازہ ترین