• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ بنگلہ دیش اور سابق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے سولہ دسمبر کو چھپنے والے کالم اور مضامین پڑھ کر کچھ یادیں میرے ذہن پہ دستک دیتی رہیں۔ پہلی دفعہ مجھے مشرقی پاکستان جانے کا موقع 1968ء میں ملا۔ یہ دورہ سول سروسز اکیڈمی کی تربیت کا حصہ تھا۔ کوئی دو ہفتے کے قیام کے دوران چٹاگانگ اور ڈھاکہ میں بہت سے لوگوں سے ملنے، رکشے والے سے لے کر دکانداروں تک سے بات کرنے اور کچھ دانشوروں سے تبادلہ خیال کرنے کے مواقع ملے۔ لاہور سے ہوائی جہاز میں بیٹھا تو ڈھاکہ پہنچنے تک سوچتا رہا کہ جس ملک کے دو حصوں کے درمیان ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ حائل ہو اور شہریوں میں ملاقات صرف ہوائی جہاز کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے کیا وہاں دونوں حصوں کے عوام ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں، اور آپس میں میل جول کے ذریعے محبت کے رشتے استوار کر سکتے ہیں؟ان سوالات کا جواب مجھے ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے قیام کے دوران بار بار ملا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ سے لے کر دانشوروں تک کبھی کسی نے مغربی پاکستان دیکھا تھا نہ مغربی پاکستان کے دیہات اور شہروں میں غربت کے مناظر دیکھے تھے۔ بنگالی بھائی سمجھتے تھے کہ مغربی پاکستان کا ہر شہری خوشحال ہے جبکہ غربت صرف مشرقی پاکستان کا مقدر ہے۔ فاصلے اور دوری سے جنم لینے والے اس تاثر کی بنیاد اس حقیقت پر تھی کہ پاکستان کی دو دہائیوں کی تاریخ میں اکثر و بیشتر مغربی پاکستان ہی حکمران رہا تھا۔ 1958ءتک جمہوری دور میں کبھی کبھار بنگالی بھی وزیر اعظم بن جاتا تھا لیکن فوجی حکمرانی، 1962ءکے آئین، صدارتی نظام حکومت اور ایوب خان کے اقتدار پر قبضے کے بعد تو مشرقی پاکستان کبھی بھی ملک پر حکمرانی کا خواب نہیں دیکھ سکتا تھا۔ بنگالی یہ تو تسلیم کرتے تھے کہ گزشتہ بائیس سال کے دوران مشرقی پاکستان میں صنعتیں لگائی گئی ہیں، سیکنڈ کیپٹل بھی تعمیر ہوا ہے، سول سروسز میں مشرقی پاکستان کا کوٹہ 60فیصد کر دیا گیا ہے، فوج میں بنگالیوں کو نمائندگی دینے کے لئے بھرتی کے قواعد میں نرمی کر دی گئی ہے لیکن اُن کے احساس محرومی کی اصل جڑ فوج کی حکومت تھی جو گیارہ برسوں پر پھیل گئی تھی۔ اس احساس محرومی کو بنگالی دانشوروں نے معاشی محرومی کے ساتھ ملا کر لوگوں کو یقین دلا دیا تھا کہ اُن کی غربت کا راز مشرقی پاکستان کے وسائل کو مغربی پاکستان کی ترقی کے لئے استعمال کرنے میں مضمر ہے۔ مبالغہ آمیزی پر مشتمل اس پروپیگنڈہ مہم میں ہندوستان شامل تھا جبکہ مرکزی حکومت نے اس کا ازالہ کرنے کے لئے کچھ بھی نہ کیا۔ سڑکوں، بازاروں، ہوٹلوں اور دفتروں میں بنگالیوں کی مغربی پاکستانیوں سے نفرت اور اُن کی آنکھوں میں احتجاج واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ مغربی پاکستانیوں کے مقابلے میں وہ خود کو محکوم سمجھتے تھے۔ چنانچہ میں جب واپس لوٹا تو میرے ذہن میں یہ خدشہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ مشرقی پاکستان زیادہ عرصے تک پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا۔ بحیثیت طالب علم میں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر تحقیق کی ہے، دنیا بھر کے پریس کا مطالعہ بھی کیا ہے اور کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ میری اس تحقیق کا نچوڑ میری انگریزی کتاب PAKISTAN DIVIDEDاور اس کے اردو ترجمے ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ میں موجود ہے۔ کالم اس موضوع کا متحمل نہیں ہو سکتا البتہ کچھ بنیادی باتیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے 16دسمبر کے حوالے سے کالم پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے دانشوروں میں ایک ملامتی طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو بنگالیوں کی علیحدگی کا سوفیصد ذمہ دار ہمیں سمجھتا ہے حالانکہ عالمی تاریخ گواہ ہے کہ جب اتنی بڑی تحریکیں چلتی ہیں یا ملک ٹوٹتے ہیں یا قومیں بکھرتی ہیں تو اس سانحے میں ایک نہیں، بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ مہربان اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے بی بی سی کے ڈیوڈ فراسٹ سے لے کر ڈھاکہ کے عوامی جلسوں تک کئی بار تسلیم کیا کہ وہ طویل عرصے سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کر رہا تھا۔ چند برس قبل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھی 16دسمبر کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ جب وہ اپنے والد شیخ مجیب کے ساتھ لندن میں مقیم تھی تو ’’را‘‘ کے افسران ابا جی سے ملنے آتے تھے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پروگرام بنتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ اگرتلہ سازش کیس سو فیصد سچ تھا لیکن عوام کی احتجاجی تحریک کے سمندر میں بہہ کر غرق ہو گیا تھا۔ قائد اعظم نے مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران مارچ 1948ء میں جلسہ عام میں کہا تھا کہ ہندوستان قیام پاکستان میں ناکامی کے بعد اب اسے توڑنے کے لئے کام کر رہا ہے اور صوبائیت کا زہر گھول رہا ہے۔ مت بھولئے کہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش یاترا کے دوران بنگلہ دیش کے قیام کا کریڈٹ ببانگ دہل لیا اور ہندوستان کو بنگالیوں کے لئے آزادی کا پیامبر قرار دیا۔ طویل فوجی حکومت، دونوں بازوئوں کے درمیان جغرافیائی فاصلے اور معاشی و سیاسی محرومیوں کی پیدا کردہ نفرت کی لہر کو یحییٰ خان کی حماقتوں نے بغاوت کے سمندر میں تبدیل کر دیا۔ ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات منعقد کروانے کے بعد اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرنا اور انتقال اقتدار کی بجائے آرمی ایکشن کے ذریعے بنگالیوں کو دبانے کی کوشش کرنا دراصل علیحدگی کا آسان ترین نسخہ تھا جو ہماری تاریخ کا عظیم ترین المیہ بن گیا اور یہ ’’سبق‘‘ دے گیا کہ سیاست و حکمرانی فوج کے بس کا روگ نہیں، وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے سیاسی بحرانوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نہ ہی اُنہیں گولی کی بجائے ڈائیلاگ کے ذریعے ’’حل‘‘ ڈھونڈنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ البتہ ملامتی حضرات آرمی ایکشن کے دوران تین ملین (تیس لاکھ) کے قتل و غارت کا ذکر کرتے ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ وہ کلکتہ کی دانشور، ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر سرمیلا بوس کی کتاب DEAD RECKONING پڑھیں جس نے کئی برسوں کی گہری تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ آرمی ایکشن کے دوران زیادہ سے زیادہ دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اُس نے اُن ہزاروں مغربی پاکستانیوں کا بھی ذکر کیا ہے جنہیں بنگالیوں نے آرمی ایکشن سے قبل اور بعد ازاں بے رحمی اور دھوکے سے قتل کیا تھا۔ خود میرے دو کلاس فیلو جو سروس میں مجھ سے ایک سال سینئر تھے اور مشرقی پاکستان میں SDMتعینات تھے آرمی ایکشن سے قبل ماتحت بنگالیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اسی بغاوت اور لاقانونیت نے آرمی ایکشن کو دعوت دی۔ دراصل ہم اپنی ملامت کرتے ہوئے توازن کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں سارے صوبے یا علاقے ایک جیسے ترقی یافتہ نہیں ہوتے لیکن وہاں کوئی تیسری قوت اس سے فائدہ اٹھا کر نفرت کا زہر نہیں پھیلاتی۔
گزشتہ پانچ دہائیوں سے ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور ہمارے کشمیری بھائی آزادی کے لئے لاکھوں جانیں قربان کر چکے ہیں۔ کیا اُن میں سے کوئی صوبہ یا مقبوضہ کشمیر آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟ سچ یہ ہے کہ احساس محرومی اور نفرت کے باوجود مشرقی پاکستان کبھی بھی علیحدہ نہ ہو سکتا اگر وہ مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل دور نہ ہوتا اور سب سے اہم بات یہ کہ اُس کا ہزاروں میل کا بارڈر ہندوستان کے ساتھ مشترک نہ ہوتا۔ ہندوستان نے اس صورتحال سے خوب فائدہ اٹھایا اور پھر مکتی باہنی کی آڑ میں اپنی فوجی طاقت کے زور پر مشرقی پاکستان کو فتح کر لیا۔ صوبوں کے درمیان احساس محرومی یا ذہنی فاصلوں کا علاج صرف سیاسی و جمہوری عمل کے ذریعے ممکن ہوتا ہے نہ کہ رائفل سے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم سبق اور راہنما اصول ہے۔ رہی تصور پاکستان سے ہماری کمٹ منٹ تو اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ ہم نے اُن تمام قوتوں کو بھلا دیا ہے جنہوں نے اتحاد پاکستان کے لئے خون بہایا۔ البدر ہمیں اس لئے پسند نہیں کہ وہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم ہے لیکن ان دو ڈھائی لاکھ بہاریوں کو ہی قبول کر لیجئے جو 1971ء سے پاکستانی ہونے کے الزام میں کیمپوں میں پڑے ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں اور پھر جماعت اسلامی کے اُن قائدین کو ہی پھانسی کے پھندے سے بچانے کی کوشش کیجئے جنہیں پاکستان سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ ان کا ہم پر اتنا تو حق ہے کہ ہم اقوام متحدہ کے فورم پر مسئلہ اٹھائیں یا عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم حب الوطنی کے تقاضے نبھا نہیں سکے۔

تازہ ترین