• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
ماضی میں زندگی بسر کرنا ذہنی پستی اور اس سے سبق سیکھتے رہنا عین دانش مندی کی علامت ہے۔ سانحۂ مشرقی پاکستان سے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے ایک بڑا سبق سیکھا کہ فقط آئین ہی ملکی وحدت اور سالمیت کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اِسی اِدراک اور شعور کے تحت سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مسٹر بھٹو کو اقتدار سنبھالنے کے چار ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے ایک عبوری آئین منظور کرانا اور مارشل لا کو خیرباد کہنا پڑا تھا۔ اس عبوری آئین کی منظوری میں اپوزیشن کی طرف سے پورا پورا تعاون کیا گیا اور مستقل آئین کی تیاری کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی، اس میں پروفیسر غفور احمد بہت نمایاں تھے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خاں تھے جن پر بھٹو صاحب کڑی تنقید کرتے اور اُن پر پاکستان دشمنی کا لیبل لگاتے رہتے۔ شدید سیاسی کشمکش کے باوجود قومی ایشوز پر مفاہمت کا عمل جاری رہا اور جب مسٹر بھٹو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لیے شملہ روانہ ہونے لگے، تو اپوزیشن جماعتیں اُن کی پشت پر کھڑی تھیں۔ اس وقت کی حکومتی پالیسی کے تحت مسٹر بھٹو کے ایک نمائندے ہم سے ملنے کوٹ لکھپت جیل تشریف لائے جہاں ہم پانچ صحافی فوجی عدالت کی دی ہوئی سزا بھگت رہے تھے۔ ہم نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی۔
1973ء کے اوائل میں مولانا شاہ احمد نورانی جو اپوزیشن جماعتوں میں بڑے سرگرم تھے، انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک کنونشن بلانے کا اعلان کیا۔ جناب مصطفیٰ صادق اور راقم الحروف اسلام آباد پہنچ گئے اور مولانا ظفر احمد انصاری کے برابر والے کمرے میں ٹھہرے۔ کنونشن میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے جو دو روز تک حالات کا جائزہ لیتے اور مختلف تدابیر پر غور کرتے رہے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ایک لائحہ عمل پر اتفاقِ رائے نہیں ہو پا رہا، چنانچہ مولانا انصاری کی تجویز پر ہم دونوں صحافیوں نے ’اعلانِ اسلام آباد‘ کے نام سے ایک مسودہ تیار کیا۔ اس میں حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بارہ نکاتی پروگرام تجویز کیا گیا تھا۔ اِس اعلامیے پر وہ تمام قائدین متفق ہو گئے، البتہ جناب عبدالولی خاں نے ’مسلم قومیت‘ کے بجائے ’پاکستانی قومیت‘ کی ترکیب استعمال کرنے کا مشورہ دیا جو قبول کر لیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما ہماری اس کاوش پر بہت خوش تھے کہ انہیں موقع کی مناسبت سے ایک تیار شدہ دستاویز میسر آ گئی تھی۔ اُنہوں نے اس اتحاد کا نام ’متحدہ جمہوری محاذ‘ رکھا۔ اِسی اجتماع میں یہ اعلان بھی ہوا کہ اس محاذ کے زیرِ اہتمام 23مارچ 1973ء کو لیاقت باغ میں جلسۂ عام منعقد کیا جائے گا۔ یہ وہی دن تھے جب قومی اسمبلی میں دستور سازی کا عمل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا تھا اور حکومت عددی اکثریت کے بل بوتے پر اپنے نظریات شامل کرنے پر بضد تھی جبکہ اپوزیشن دستور میں اسلامی اور جمہوری تصورات و اقدار کا ایک حسین امتزاج دیکھنا چاہتی تھی۔ ہم دونوں صحافی کئی ہفتے اسلام آباد ہی میں ٹھہرے رہے۔ ان دنوں مصطفیٰ کھر پنجاب کے بہت طاقتور گورنر تھے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی اسمبلی اُن کے اشاروں پر چلتے تھے۔
جناب مصطفیٰ صادق کا کھر صاحب کے ساتھ ایک اعتماد کا رشتہ قائم تھا۔ اُنہی نے مولانا انصاری کی ملاقات کھر صاحب سے کروائی تھی جو اُن کی سیاسی بصیرت سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ مولانا کو جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا اعتماد حاصل تھا جو ان دنوں وزیر قانون اور بھٹو صاحب کے قریبی معتمدین میں شامل تھے۔ خوش قسمتی سے اپوزیشن کے قائدین ہماری بات کو وزن دیتے اور دستور سازی میں کوئی مشکل مرحلہ آتا، تو ہم درمیانی راستہ تلاش کرنے میں اُن کی مدد کرتے۔ بھٹو صاحب کی مشکل یہ تھی کہ دونوں چھوٹے صوبوں سرحد اور بلوچستان کی اسمبلیوں میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی اور وہاں بالترتیب مولانا مفتی محمود اور سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومتیں قائم تھیں۔ بھٹو صاحب نے فروری 1973ء میں بلوچستان کی حکومت ختم کر دی۔ احتجاج کے طور پر مفتی صاحب بھی مستعفی ہو گئے اور یوں ایک خوفناک سیاسی بحران منڈلانے لگا۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی میں شدت آتی گئی جبکہ23مارچ کو ایک قیامت ِ صغریٰ ٹوٹ پڑی۔ متحدہ جمہوری محاذ کے زیرِ اہتمام لیاقت باغ میں ہونے والے جلسۂ عام پر حکمران جماعت کے غنڈوں نے حملہ کر دیا۔ لاشیں گرتی رہیں اور راولپنڈی میں دہشت پھیلتی گئی۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تر کا تعلق صوبۂ سرحد سے تھا۔ جناب عبدالولی خاں کو اُن کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ ان لاشوں کا پورے شہر میں جلوس نکال کر حکومت کے خلاف سیاسی فضا پیدا کرنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے، مگر خاں صاحب خاموشی سے وہ لاشیں پشاور لے گئے، مبادا حالات مزید خراب ہو جائیں۔ دوسری طرف آئین کی آخری منظوری اور اس پر دستخط ثبت کرنے کی تاریخ دس اپریل مقرر کی جا چکی تھی۔ لیاقت باغ کے حادثے کے بعد صوبۂ سرحد اور صوبۂ بلوچستان کے نمائندوں کی اِس اہم اجلاس میں شمولیت بظاہر ناممکن دکھائی دیتی تھی۔
اس مرحلے پر مولانا ظفر احمد انصاری، جناب سردار شیر باز خاں مزاری، جناب غوث بخش بزنجو اور پروفیسر غفور احمد نے بے حد مثبت کردار ادا کیا جبکہ ہم دونوں صحافی اختلافات کے کانٹے نکالتے اور مفاہمت کی فضا پیدا کرنے میں شب و روز مصروف رہے۔ ان اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں خان عبدالولی خاں دس اپریل کے سیشن میں شمولیت کے لیے آمادہ ہو گئے اور جناب بزنجو کے ذریعے ہم قومی اسمبلی میں خیر بخش مری کے سوا بلوچستان کے تمام نمائندوں کو متفقہ دستور کی اہمیت سمجھانے میں کامیاب رہے۔ حکومت کی طرف سے اس امر کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اپوزیشن کی متفقہ سفارشات دستور میں شامل کر لی جائیں گی جو آخری سیشن کے دوران منظور کر لی گئیں۔ یوں دستور سازی کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔ گزشتہ چوالیس برسوں کے دوران اس دستور پر بہت سے حادثات گزرے ہیں اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اس کی ہیئت فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن کی ہو گئی ہے، مگر ایک بنیادی دستاویز ہمیں متحد رکھے ہوئے ہے، تاہم کبھی کبھی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوم دستور سازی کا ایک نیا تجربہ کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ مشرقی پاکستان کا سانحہ اس کے تحت الشعور میں بہت گہرا اُتر چکا ہے۔ اب اصل مسئلہ آئین کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کا ہے۔ سینیٹ کے اِن کیمرہ اجلاس میں فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کا اپنے تین اہم ساتھیوں کے ہمراہ کھلے ذہن کے ساتھ تبادلۂ خیال ایک بہت بڑی پیش رفت اور روشن مستقبل کا ایک مژدۂ جانفزا ہے۔ اس حیات افروز تجربے کی روشنی میں قومی یکجہتی کے فروغ، ریاست کی عمل داری کے ایک پائیدار نظام، شفاف انتخابات کی ضمانت اور مسلکی قیادت کی منہ زور طاقت کی حدبندی کے لیے ہمیں مزید کیا کچھ کرنا درکار ہو گا، اس پر ہم آئندہ کے کالم میں روشنی ڈالیں گے۔

تازہ ترین