• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنے کا عندیہ خوش آئند امر ہے اس سے ملک کے عوام میں اچھا پیغام جائے گا اور اداروں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مدد ملے گی۔ پوری قوم کو خدشات سے باہر نکلنے اور غیریقینی صورتحال سے نجات ملے گی۔ ہر شخص اور ادارے کیلئے پارلیمنٹ بالادست اور آئین و قانون کا مقدم ہونا نہایت ضروری ہے بصورت دیگر ملک میں جنگل کا قانون رائج ہونے کا تاثر پھیلے گا۔ آرمی چیف کی طرف سے فوج کے آئین سے ماورا کردار کی نفی کا بیان قابل تحسین ہے۔ پاکستان میں جب تک قانون کی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرلیا جاتا مثبت تبدیلی کاخواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ سینیٹ میں بھی حلقہ بندی کے ترمیمی بل کی منظوری سے بروقت انتخابات کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ اب افواہوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ حکومت اپنی آئینی وقانونی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ملک میں عام انتخابات 2018کی حکمت عملی واضح کرے۔ جمہوریت کا تسلسل ملکی میں مفاد میں ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی چاہئے کہ وہ عدالتی فیصلوں کو کھلے دل سے تسلیم کریں۔ ’’اپنے حق میں فیصلہ آجائے تو اچھا، مخالفت میں آئے تو برا‘‘ یہ روایت اب ختم ہونی چاہئے۔ اس سے اداروں کی توقیر نہیں بلکہ محاذ آرائی کو ہوا ملتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ ایک طرف حکمران دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی نوید قوم کو سناتے نہیں تھکتے جبکہ دوسری جانب رواں سال میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوچکے ہیں جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ افغانستان میں جب تک نام نہاد امریکی جنگ کا خاتمہ نہیں ہوگا اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ بھارت، اسرائیل اور امریکہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف متحد ہوچکے ہیں ۔ بلوچستان کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنایا جاسکے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی امور ناصر جنجوعہ نے بھی انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ پاکستان کو ترقی سے روکنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے انہی بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک دشمن عناصر اور ان کے آلہ کاروں کا قلع قمع کرنے کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان کی عزت، وقار اور سلامتی دائو پر لگ چکی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پینٹاگون اور واشنگٹن کی پالیسیوں کو ترک کرکے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ملک و قوم کے مفاد میں مرتب کیا جائے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ حکمرانوں کیلئے ملک و قوم سے زیادہ کوئی چیز مقدم نہیں ہونی چاہئے۔ پرویز مشرف کی بزدلانہ پالیسیوں کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی انہی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ڈونلڈٹرمپ انتظامیہ ڈومور کا مطالبہ کرکے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو دبائو میں رکھنا چاہتی ہے۔ پورے ملک میں امن وامان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ پنجاب میں بھی جرائم کی شرح میں کئی گنا اضافہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ حکمرانوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کی وجہ سے عوام کی جان ومال غیر محفوظ ہوچکی ہے۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود تھانہ کلچر میں بہتری نہیں ہوسکی۔ عوام آج بھی اپنے ساتھ کسی بھی قسم کی واردات پیش آنے کے باوجود تھانے جانے سے گھبراتے ہیں۔ پولیس کی روایتی ہٹ دھرمی سے جرائم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ پنجاب پولیس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری تا31 اکتوبر2017تک لاہور سمیت صوبے بھر کے تھانوں میں مجموعی طور پر 3لاکھ 41ہزار 829مقدمات درج کئے گئے۔ اس دورانیے میں 3437افراد قتل جبکہ اقدام قتل کے 3774واقعات درج ہوئے۔ صوبے کی ناگفتہ بہ صورتحال سے یوں محسوس ہوتاہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عملاً غیر فعال ہوچکے ہیں۔ اغوا کے 11730مقدمات درج کئے گئے جبکہ اغوا برائے تاوان کے 35واقعات ہوئے۔ ڈکیتی کے956 ، چوری کے10ہزار 359اور وہیکل چھیننے کے 2909مقدمات کا درج ہونا حکمرانوں کی کارکردگی پربہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہمارا دشمن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرانے میں مصروف ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کو بھارت، اسرائیل اور امریکی گٹھ جوڑ مکمل سپورٹ کررہا ہے۔ ابھی چند روز قبل 16دسمبر کادن گزرا ہے۔ یہ وہ سیاہ دن ہے کہ جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تھا اور تین سال قبل اسی روز آرمی پبلک اسکول کا سانحہ بھی پیش آیا تھا۔ ملک دشمن قوتوں نے اس وقت بلوچستان کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔ سقوط ڈھاکہ قومی سانحہ ہے جس کے پس منظر میں پاکستانی حکمرانوں کے غلط فیصلے،داخلی انتشار اور دشمنوں کی کارستانیاں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے آج46برس گزر جانے کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی ملک میں 1971جیسے حالات پیدا کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بھارت بلوچستان میں اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہے۔ دشمن پاکستان کی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن چکا ہے جبکہ ہم آپس میں گتھم گتھا ہورہے ہیں۔ اے پی ایس کے دلخراش واقعہ نے پوری قوم کو یکجا کردیا تھا۔ معصوم بچوں کا ناحق خون ارباب اقتدار کیلئے بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ ڈھاکہ میں پاکستان توڑنے کا برملا اعتراف کرنے والے نریندر مودی سے ہمارے حکمران تجارت اور دوستی چاہتے ہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے حلف اٹھاتے ساتھ ہی بھارت سے تعلقات استوار کرنے کی بات تھی۔ مودی سرکار سے دوستی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی، ہندوستان نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ کھیل کے میدانوں سے لے کر بین الاقوامی اور سفارتی محاذوں تک پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع وہ خالی ہاتھ نہیں جانے دیتا۔ ستم بالائے ستم بھارت کی گھنائونی حرکتیں ہنوز جاری ہیں اور ہمارے حکمران خواب غفلت میں مبتلا ہیں۔ پاکستان خدا تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے ہمارے آبائواجداد نے بہت بڑی قربانیاں دی تھیں۔ گھر، مال، مویشی اور جائیدادیں چھوڑ دیں اور اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آج بھی برسر اقتدار طبقہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے افکار اور دو قومی نظرئیے کو بھلا کر ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف ہے۔ ہمیں 1971اور آرمی پبلک جیسے سانحات سے سبق سیکھتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اسی میں ملک کی بقا و سلامتی ہے۔

تازہ ترین