• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرانے زمانے کی بات ہے۔ پنجاب کی دھرتی ابھی جدید تہذیب سے نا آشنا تھی۔ شہر خال خال تھے۔ تہذیبی اور سماجی اکائی دیہات پر مشتمل تھی۔ دیہات کے درمیان فاصلہ آج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتا تھا اور ہردیہہ ایک مکمل اور خود کفیل اکائی کی حیثیت رکھتا تھا۔ گائوں کے باسیوں کی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی غرض ہر قسم کی ضروریات کا سامان علاقے کے اندر ہی موجود ہوتا تھا۔اسی لئے گائوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جنہوں نے ساری زندگی کبھی گائوں سےباہر قدم تک نہیں رکھا تھا یا پھر بڑی حد ہو گئی تو قرب و جوار کے چند ایک دیہات کا سفر کیا ہوتا۔ گائوں کے لوگوں کا غالب پیشہ کھیتی باڑی تھا، لیکن ہر گائوں میں ایک لوہار، ایک ترکھان، ایک نائی، ایک گورکن، ایک امام مسجد، ایک پنڈت، ایک گروبابا اور ایک رحمت بابا ہوا کرتا تھا۔ سال کے سال جب گندم کی فصل آتی تو ہر گھرانہ اپنے غلے سے ایک طے شدہ حصہ ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ لوگ سادہ دل تھے، تنازعے زیادہ نہیں تھے۔ چھوٹے موٹے مسئلے ہوتے لوگ بابا رحمت دین کے پاس لے جاتے، بابا رحمت دین خود فیصلہ کر دیتا یا کوئی بڑی بات ہوئی تو بابا رحمت دین کی سربراہی میں پنچایت بیٹھ جاتی۔ وہیں فیصلہ ہوتا، وہیں سزا جزا ہوتی اور دیہات کی زندگی آگے بڑھ جاتی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہر تنازع میں انصاف ہوتا تھا لیکن بابا رحمت دین کی تھوڑی بہت ساکھ تھی، لوگ اسکے فیصلے تسلیم کر لیتے، سماجی دبائو کی وجہ سے فوری عمل ہو جاتا۔ لوگ بھی خوش تھے اور بابا رحمت دین بھی خوش۔ بابا رحمت دین کی لوگ عزت کرتے تھے۔
پھر نئے زمانے آ گئے اور معاملہ کچھ یوں ہو گیا کہ ؎
اس دنیا کے نقشے میں
شہر تو ہیں دیہات نہیں
نئے زمانے کی بنیاد شہر تھے، شہری تہذیب دیہات کو کھا گئی۔ فاصلے سمٹ گئے، رابطے بڑھ گئے۔ روایتی پیشے بکھر گئے۔ جہاں ہر پیشے نے نئی تہذیب اوڑھ لی وہیں بابا رحمت دین بھی مسٹر آر ڈی چوہدری بن گئے، انہوں نے دھوتی کرتا اتار پھینکا اور ٹائی کوٹ پہن لیا۔ ٹھیٹ دیہاتی پنجابی کی بجائے اب پنجابی لہجے میں انگریزی بولنے لگے۔ گائوں کے چوک میں بوڑھے برگد یا پیپل کے درخت کی بجائے بابا رحمت دین نے اے سی دفتر میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ سال کے سال ملنے والے غلے کی بجائے اب بابا رحمت دین لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ لینے لگے۔ گائوں میں اپنے چھوٹے سے آبائی گھر کی بجائے بابا جی شہر کے سب سے مہنگے علاقے میں واقع کئی کنال پر محیط سرکاری بنگلے میں شفٹ ہو گئے۔ گائوں والا عجز اور سادگی چھوڑ کر بابا جی نے رعب، دبدبہ اور خود ساختہ احساس تفاخر اپنا لیا۔ ہزاروں سال کی تہذیب کی گرفت بابا رحمتے کے ذہن پر ڈھیلی ہوئی اور انگریزوں کی غلامی نے بابے کے دفتر کے باہر یورپی دیومالائی داستانوں کی دیوی کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھ میں ترازو والی مورتی نصب کر دی تو بابا جی کے ساتھ کچھ عجیب سامعاملہ ہو گیا۔ بابا جی یورپی نظامِ عدل پہننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ اسے پورا نہیں آتا۔ ؎
کچھ نوجوان شہر سے آئے ہیں لوٹ کر
اب دائو پر لگی ہوئی عزت ہے گائوں کی
گائوں میں تو بابا رحمت کو ہر بات کی خبر رہتی تھی، صبح چھ فٹ کی ڈانگ کے سہارے بابا رحمتا سارے گائوں کا چکر لگاتا تھا۔ پھر جب بابا برگد کے درخت کے نیچے براجمان ہوتا تو کئی میدے، شیدے اور گامے اسے سارے گائوں کی خبر دیتے تھے۔ لیکن انگریز کے کہنے پر بابے رحمتے نے آنکھوں پر کالی پٹی تو باندھ لی لیکن صدیوں پرانی عادتوں سے مجبوربابے نے کان اور زبان کی محنت کئی گنا بڑھا دی۔ اور کبھی کبھی تو دوسروں سے نظریں بچا کر بابا جی ایک آنکھ سے کالی پٹی تھوڑی نیچے ہٹا کر دیکھ بھی لیتے ہیں کہ کہیں کسی پارٹی کے ہاتھ میں ڈنڈا تو نہیں۔ انگریز نے لاکھ سمجھایا کہ بابا جی سوشل لائف چھوڑنا پڑے گی لیکن بابا جی نے کہا کہ کوٹ پینٹ، انگریزی زبان، بنگلے اور لاکھوں روپے تنخواہ، مراعات و پروٹوکول کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن بابا رحمت دین اپنے اندر کے پینڈو کو نہیں مار سکتا۔ شادی، بیاہ، خوشی غمی، اور یاری دوستی ہماری ثقافت کی بنیاد ہے وہ نہیں چھوڑی جاتی ۔ سو بابا رحمت دین آہستہ آہستہ سوشل لائف کی پابندی کرنے لگا تو سوشل لائف کے آداب بھی سیکھ لئے اور اسکے تقاضے بھی نبھانے لگا۔ اسی طرح ایک نشست کی بجائے کئی نشستوں میں کیس کا فیصلہ کرنے کی روایت گورے کی دین ہے لیکن اس تاریخ کی ایجاد میں حسب ضرورت غیر معینہ مدت کی تاریخ، نا ختم ہونے والی مدت کی تاریخ، روزانہ کی بنیاد پر تاریخ یا پھر تاریخ پر تاریخ، تاریخ پر تاریخ کے ویلیو ایڈیشن کا کریڈٹ یقینا بابے رحمتے کو ہی جاتا ہے۔ انگریز نے آئینی حلف متعارف کروایا تھا لیکن بابا رحمت دین نے اس پر پی سی او حلف کی گرہ باندھ دی۔ حالات نے کروٹ لی تو بابا جی نے وہ گرہ کھول دی۔؎
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
تنازعے بڑھے تو بابوں کی مانگ بھی بڑھی سو بابا جی نے کہا کہ میرے بچے، بھانجے، بھتیجے اور داماد بھی بابے ہی ہیں سو وہ بھی بابا رحمت کے درجے پر فائز ہونے لگے۔ جیلیں آباد ہونا شروع ہو گئیں اور پھر اتنی آباد ہوئیں کہ برباد ہونا شروع ہو گئیں۔ شب خون برحق ٹھہرنے لگے۔ بڑے ناموں کا راج ہو گیا، چھوٹے نام بے نام و نشان ہونے لگے۔ آواز تعزیر ہوگئی، سانس لینا جرم ٹھہرا، خیال بغاوت قرار پایا، سوال غداری ہو گیا۔ شہری لاپتہ ہونے لگے۔عوام بلکنے لگے، غریب تڑپنے لگے۔ لوگ رو رو کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہیں اور چلاتے ہیں ؎
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گائوں میں برسات کیوں نہیں کرتا
بابا رحمت دین فریادوں سے لاتعلق، اپنی ذات کے سحر میں گرفتار، اپنی بڑائیاں بیان کرنے میں مصروف ہے۔ کیفیتِ انکار میں گم بابے کی زبان پر بس ایک ہی سوال ہے کہ میں اتنا اچھا ہوں لیکن لوگ میری عزت کیوں نہیں کرتے؟

تازہ ترین