• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالباً 21یا 22مارچ 2017ہمارے اخبار ’’جنگ‘‘ لاہور کے صفحہ 2کی ایک خبر پر نظر پڑی پھر وہیں پر ٹک گئی۔ خبرتھی ’’مولانامودودی کے گھر کی 70برس پرانی ٹیلیفون لائن منقطع کردی گئی اور تفصیل کے مطابق تاہم اس حوالے سے کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں کہ ٹیلی فون لائن منقطع کرنے کی وجہ کیا تھی۔ واضح رہے یہ ٹیلیفون مولانا مودودی کے نام پر 70سال سے پہلے لگا تھا۔‘‘ تاریخ یہاں پر رپورٹر کا مسئلہ نہیں بنتا تھا وہ جتنی بھی عمر کا ہو 1947 میں واپس جانےسے تو رہا۔
وقت بہائو میں ہے، ماضی محفوظ رہتا ہے، یادوں کی جو اطلاع ہوتی، دوپہر کے سمے چمکتی، سہ پہر کو دھیمی علامت بنتی، مغرب کے قریب اترتی، شب کےسایوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ جیسے لاشعور کے اسی حصے میں آرام کرنے چلی گئی ہو جہاں سے نمودارہوئی تھی۔ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت، بہت ہی بڑی اکثریت ، ظاہراً، باطناً، معنواً ہی نہیں واقعتاً بھی مٹی میں غائب ہوجاتی ہے۔ اب یہ خالق ہی جانتا ہے کس نے اٹھنا ہے، کس کو سات ارتقا، مطلب یہ کہ سات جنتوں کی رفعت تک پہنچنا ہے!
میں نے برادر ِ محترم جناب مجیب الرحمٰن شامی سے پوچھا ’’آپ نے وہ سید صاحب کی ٹیلیفون لائن منقطع ہونے کی خبر پڑھی؟‘‘
’’ہاں! میرے خیال میں اب اس ٹیلیفون کا نمبر بدلا ہوگا۔‘‘ ان کا جواب تھا۔
’’لیکن اس خبر کے ذریعے ایک بہت ہی جاندار تاریخی عنصر نے آنکھ جھپکائی ہے۔ اس پر لکھنا چاہئے۔ میں نے جونہی اسے پڑھا، برسوں پر مشتمل زمانوں کے مناظر ذہن کے پردے پر منتقل ہوگئے۔ عجیب سا ذہنی سماں تھا جیسے کوئی پس پردہ رہ کر فلم آپریٹ کر رہا ہو!‘‘
’’آپ کالم لکھیں، اس میں بتائیں کہ ڈائریکٹ فون اٹھاتے تھے، آواز آتی’’ میں ابو الاعلیٰ بول رہا ہوں۔‘‘ شامی صاحب نے جواباً کہا۔
آپ یوں سمجھ لیں میری ایسی حالت تھی جیسے دماغ میں آبدیدگی کے جرثوموں کی پیدائش ہورہی ہے، آنسو تسلسل کی صورت میں نہیں قطرہ قطرہ ٹپ ٹپ کرکے دل پر پڑتے رہے۔ ’’یہ پڑتے رہے کیا ہوتا ہے؟‘‘ اسے یوں متشکل کریں جیسے آنسو گئے وقتوں کے دروازوں پر معدومیت کے کناروں کو چھوتی دستک دے رہے ہوں!‘‘
ذہن کے پردوں پر اس فلم کے مناظر گڈمڈ ہو رہے ہیں۔ ترتیب بے ترتیبی سے، ادوار ادوار سے ٹکرانے لگے ہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا، 47 برس پہلے گزرے یہ سارے واقعات میری ذات کا بیانیہ ہیں ۔ بسا اوقات آپ اپنی ذات میں اجتماعیت کا وجود پال لیتے ہیں۔
جون 1976کا ایک تذکرہ!
1976میں ایک پندرہ روزہ جریدہ نکلتا تھا۔ ہم نے کسی شمارے میں ’’سید مودودی کواپنی خود نوشت لکھنی چاہئے‘‘ کے عنوان سے ایک بحث سی چھیڑ دی۔ عبداللہ ملک مرحوم نے بھی اس موضوع پرگفتگو میں حصہ لیا تھا۔ بات کسی نہ کسی طرح سید صاحب تک پہنچ گئی یا پہنچائی گئی۔ اچانک ہمیں ان کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔ خودنوشت سوانح کے نظریئےپر ان کے افکار آپ بھی جان جائیں۔
ان کا موقف تھا:’’آپ نے اور دوسرے اصحاب نے ازراہ ِ کرم مجھ سے پرزور تقاضا کیا ہے کہ میں اپنی خودنوشت سوانح لکھوں۔ اس سے پہلے متعدد اصحاب مجھ سے یہی فرمائش کرچکے ہیں لیکن میں نے جب کبھی اپنے دل کو ٹٹولا، یہی محسوس کیا کہ اس کام میں مجھے اپنا وقت صرف نہیں کرنا چاہئے۔ میں تقریباً 45سال سے اپنی زندگی کا ایک نصب العین قرار دے چکا ہوں اور سب کام چھوڑ کر اپنا سارا کام اور اپنی ساری محنتیں اس کےلئے وقف کئے ہوئے۔ مجھے اپنے وقت کے استعمال میں اب اور بھی زیادہ کفایت شعاری برتنی پڑ رہی ہے کیونکہ زندگی کے دن تھوڑے ہیں اور اپنے مقصد ِ زندگی کے لئے بہت کام کرنا ہے۔ اس حالت میں اپنی سوانح لکھنا مجھے اپنے وقت کا کوئی صحیح مصرف نظر نہیںآتا ۔ اگر میری زندگی میں کوئی چیز آنے والی نسلوں کی نگاہ میں قابل قدر ہوئی تو انہی میں سے کوئی بندہ ٔ خدا اس ضرورت کو پورا کردے گا اور شاید صحیح سوانح حیات آدمی کے مرنے کےبعد ہی لکھی جاسکتی ہے۔ خاکسار ابوالاعلیٰ!‘‘ 
یہ خط ہمیں 1976میں نظر نواز ہوا تھا۔
47 برس بیت چکے، سید مودودی کے ہم عصروں میں غلام احمد پرویز، دوسری بلند پایہ شخصیت ہیں۔ دونوں نے اک خلق خدا کومتاثر کیا۔ 47برس بعد بھی دونوںکا کام وقت کی لوح پہ تاریخ کی رائے رقم کر رہاہے۔ اس نقطہ ٔ نظر سے یقیناً پاکستان کا ہرشہری اپنی رائے میں آزاد و خودمختارہے۔ایوب خان کا پہلا مارشل لاء، شاید 7یا8اکتوبر 1958کی صبح، پورے ملک میں سکوت کا ڈیرہ ہے۔ قومی اخبارات میں خبروں کےاسلوب اشاعت نے ایوب کی آمد کو تائید سی فراہم کردی ہے۔ اتنے میں اس ساکت سمندر میں اچانک کسی کنکر پھینکے جانے پر شڑاپ کی آواز ابھرتی اور سنائی دیتی ہے۔ پورے ملک میں ایک آواز، سیدابو الاعلیٰ مودودی نے ملک میں ’’فوجی اقتدار ‘‘کی آمد پر تشویش کااظہار کیا اورکہا ’’ملک میں جلد از جلد آئینی نظام بحال کرکے عام قومی انتخابات کے انعقاد کااعلان کیاجائے۔‘‘ میری اور میرے زندہ ہم عصروں کی زندگیاں اس دروازے کے نزدیک تر آچکیں جس کے بارے میں فرما دیا گیا تھا ’’بس تمہیں یوں لگے گاجیسے ایک دروازے سے اندر داخل ہوئے اور دوسرے دروازے سے باہر نکل گئے‘‘
70ء کی دہائی کا یہ عہد نظریاتی یلغار، شورش، بھاپ، ہنگام، تہلکے اور رجز کا عہد تھا۔ تمام تر طوفان بلاخیزیوں کے باوجود کسی ایسے نیک آسیب کے غیرفطری سایوں نے وطن کو نہ دبوچا تھا جس کے بعد پاکستان کا دل بے برکت مذہبی جنونیوں اور افتراق کے شراروں کا ہدف ٹھہر جاتا۔70ء کی دہائی میں دن گیت گاتے، شامیں سحر طراز ہوتیں، بھڑکتی دوپہروں کی چلچلاہٹوں میں تسلسل کے حسین سپنوں کےتانےبانے بنے جاتے، اب تو پتا نہیں کیا ہے وہ جو پابندیوں کے اندر ایک آزاد پاکستان ہوتا تھا وہ بہرطور نہیں ہے!
بولے رے میرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی!
47برس پہلے کی ٹیلی فون لائن کیا منقطع ہوئی خاکسار جیسوں کی یادوں کے اوراق ہوا میں اڑنے لگے۔ 47برسوں کے ان دورانیوں میںہم نے کیا کیا، کیا کیا ہمارے پاس آیا اور چلا گیا۔ سعادتوں اور وحشتوں کے ابواب رقم کرنا اک کارِ دادر!
پاکستان ہمارے دیکھتے دیکھتے دوٹکڑےہوا۔ اس کہانی میں صدیق سالک مرحوم نے کہا ’’میں نے پاکستان ڈوبتے دیکھا‘‘ اور قرۃ العین حیدر وادیٔ الم سے بولی ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول فصیح ہے ’’ہر شخص کی ایک سچائی ہوتی ہے ضروری نہیں وہ صداقت بھی ہو ‘‘اپنا بھی یہی معاملہ ہے!
حبیب مکرم شامی صاحب نے بھٹو صاحب کے خاکے میں لکھا ’’صاحب ِ تقسیم القرآن ، بولیں تو معانی کا اک جہان، اٹھیں تو اک طوفان، چلیں تو صورت عبدالرحمٰن، لکھیں تو ترجمان القرآن ، کردار میں، گفتار میں، اللہ کی برہان..... حاضر و موجود سے بیزاری کا اعلان‘‘ اس صدی کا انسان، زندگی اک عرصہ ٔ امتحان، مدت حیات جاوداں‘‘ 
لیکن اپنی ذات کی ریاضت و مشقت کےتمام سفر اپنی جگہ 4اپریل 1979کی ایک شب میرے جیسے نہ جانے کتنے کرداروں کو بکھیر گئی۔ توڑ کے رکھ دیا، دائیں بازو کے قلمکاروں، مذہب پرستوں، اخلاقی اقدارکے مبلغوںاورترجمانوں نے زندگی میں درندگیوں کی تقدیس کا تہذیبی عقیدہ راسخ کردیا۔ میرے جیسے انگشت بدنداں، کال کوٹھڑی میں بند ایک ملزم کو سماعت ِ مقدمہ کے دوران میں سرعام ’’مجرم‘‘ ڈکلیئر کرنے سے لے کر تختہ دار تک اس کی ’’مسلمانی‘‘ بے پردہ کرنے کی ایک ایسی داستان رقم کی جس کے بعد ہم لوگوں نے دین کے لٹریچر کو ان لوگوں کی فکر سے الگ کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا نئے سرے سے ادراک کرنا شروع کیا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جس کے مقدمہ ٔ قتل کے کسی فوجداری مقدمے میں حوالہ عدالتوں نے ’’قانونی آلودگی‘‘ قرار دے کر ہمیشہ کے لئے مسترد کررکھا ہے ، اس کی نظیر ایوان عدل میں داخل ہی نہیں ہونے دی جاتی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جس کے بارے میں تاریخ نے کیا فیصلہ دیا۔ دائیں بازو کے اس قبیلے اور اس کے حامی عوام سمیت ان سب سے پوچھو، تم لوگوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ اور ذوالفقار علی بھٹو کے بہی کھاتے میں کیا درج ہے؟
منڈی بہائوالدین کے شہر سے لاہور تک قریب قریب 55برس کی اس صحافتی اور سیاسی مسافت کے ابواب کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔

تازہ ترین