• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ہی نہیں، اکثر ملکوں کو ادائیگیوں کے عدم توازن کا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے حکومتوں کو معاشی ترقی و استحکام کا پہیہ چلائے رکھنے کے لئے سخت فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں جن میں حکمرانوں سے لیکر خاص و عام سبھی بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہوتے ہیں بہت سے ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جو مشکلات عبور کرکے اقتصادی ترقی کی دوڑ میں شریک ہوئے اس کی بنیادی وجہ حقیقت پسندانہ اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل ہے۔ عدم سیاسی استحکام اور طویل مدتی منصوبوں کے فقدان کے باعث قیام پاکستان سے لیکر آج تک ملکی معیشت سنبھلنے نہیں پائی جس کی وجہ سے آج ملک کو درپیش ادائیگیوں کا عدم توازن انتہائی بلندی پر پہنچ گیا اس سے نمٹنے کے لئے حکومت نے 6اکتوبر 2017کو 731 درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی تھی لیکن یہ فیصلہ قومی تعمیر وترقی کے بعض منصوبوںپر ایک ضرب ثابت ہوا اس بات کے پیش نظر جمعہ کے روز اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں منتخب اشیا پر ڈیوٹی کی چھوٹ دینے کی جو منظوری دی گئی ہے ان میں سرفہرست بجا طور پر سی پیک پراجیکٹ کے تحت این ایچ اے کے انفرا اسٹرکچر پراجیکٹ کے لئے تعمیراتی میٹریل ہے جوکہ زیرتعمیر موٹر وے کے سکھر ملتان سیکشن سے متعلق ہے۔ مزید برآں آٹو سپیئر پارٹس ، ٹائرز، اور ٹیکسٹائل انڈسٹری سے متعلق سامان بھی ٹیکس چھوٹ میں شامل ہے۔ سی پیک منصوبہ مقررہ مدت میں مکمل ہونا ملک کی اہم ترین ضرورت ہے اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کا تعمیراتی تخمینہ بڑھنے نہیں پائے گا اسی طرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ چلتا رہنا چاہیئے وزیراعظم نے درست کہا کہ ملکی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے معاشی استحکام ناگزیر ہے بہتر ہوگا کہ پالیسی ساز اداروں کو محض رسمی کارروائیوں سے نکالا جائے اور انہیں حقیقت پر مبنی پالیسیاں تشکیل دینے کا ٹاسک دیا جائے اور ٹیکسوں کا ایسا مربوط نظام قائم ہونا چاہیئے جس کے تحت ٹیکس بچانے والے لاکھوں افراد ٹیکس نیٹ میں آسکیں۔

تازہ ترین