• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکانوں اور دکانوں کے مالکان اور کرایہ داروں کے مابین تنازعات ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ ایسا نہیں کہ مکان یا دکان کرائے پر لینے یا دینے کے حوالے سے کوئی معاہدہ ہی نہیں کیا جاتا۔ ایک اشٹامپ پیپر پر ایسے کسی بھی معاہدے کی پوری تفصیل درج کی جاتی ہے۔ جس میں یہ بھی درج ہوتا ہے کہ مقررہ مدت کے بعد کرایہ دار کو قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل نہ ہو گا۔ اس کے باوجود بہت سے کرایہ دار مالک مکان یا دکان کی طرف سے دکان، مکان کا کرایہ بڑھانے یا خالی کرنے کے مطالبے پر عدالت سے حکم امتناع لے آتے ہیں اور یوں یہ معاملہ برسوں چلتا ہے۔ فریقین میں سے دونوں کا رویہ بسا اوقات درست نہیں ہوتا دکان چل جائے تو مالک، دکان کرایہ بڑھانے یا دکان خالی کرانے کا تقاضا شروع کر دیتا ہے۔ یونہی مالک مکان بھی کرایہ بڑھانے کی فرمائش تو آئے روز کرتا ہے لیکن کرایہ دار کو مکان کی مرمت اور دیگر بنیادی اشیاء کی فراہمی میں ٹامل مٹول سے کام لیتا رہتا ہے۔ نتیجہ نزاع اور پھر عدلیہ سے رجوع تک جا پہنچتا ہے اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کرایہ دار مکان یا دکان کا بیس سال قبل کا طے شدہ کرایہ ادا کر رہے ہیں، لاہور کے مال روڈ اور کراچی کے طارق روڈ پر چند دکانوں کا کرایہ چند سو روپے ہے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اس ضمن میں انتہائی اہم فیصلہ دیا ہے کہ مالک اور کرایہ دار کے درمیان معاہدے کی مدت کے خاتمے کے بعد کرایہ دار کا زبردستی قبضہ جاری رکھنا غیر قانونی ہو گا۔ چیف جسٹس نے اسلام آباد میں ایسے تنازعات کے بارے میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ معاہدے کی مدت کے خاتمے کے بعد صرف مالک مکان کی مرضی سے اس میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ اس لئے بھی لائق استائش ہے کہ اس میں مالک اور کرایہ دار کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے نتائج ایسے تنازعات کی کمی کی صورت میں برآمد ہوں گے۔

تازہ ترین