• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ امریکی صدور جارج بش اور ڈونلڈ ٹرمپ سے ہر بات کی توقع کرسکتے ہیں دونوں ہی ایک ہی ذہنیت کے مالک ہیں۔ ایک نے مشرق وسطیٰ کو جہنم بنادیا اور دوسرا شمالی کوریا کے خلاف تو کچھ نہ کرسکا اس نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت مان لیا۔ مغربی ممالک کے انصاف کا بھی عجیب ترازو ہے۔ اگر عراق سیکورٹی کونسل کے حکم پر حیل و حجت کرتا ہے تو اس کو تباہ کردیا جاتا ہے اور اگر اسرائیل اور ہندوستان یہ جرم کرتے ہیں تو ان کی پزیرائی اور مالی امداد کی جاتی ہے۔ جونہی امریکی صدر نے اسرائیل کی حمایت میں بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کیا اسلامی ممالک میں شور و غل کا سلسلہ شروع ہوگیا سب سے پہلے ترکی نے غصّہ کا اظہار کیا اور ترکی صدر نے اسلامی ممالک کی کانفرنس بُلا ڈالی۔ آمدن، نشتن، گفتن، خوردن، برخاستن کی پوری رسم ادا کی گئی اور معاملہ ختم۔ مغربی ممالک جانتے ہیں کہ اسلامی ممالک کمزور ہیں، اتفاق نہیں ہے اور سوائے عارضی شور و غل کےکچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ علم، سائنس و ٹیکنالوجی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی سے گیارویں صدی عیسوی تک ہمارا بول بالا تھا۔ آج بھی استنبول کا عجائب گھر ٹوپ کاپی اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ شہنشاہ چین، بادشاہ فرانس، بادشاہ انگلستان، بادشاہ روس، فرانس، بادشاہ جرمنی، ہنگری، آسٹریا ڈھیروں تحفہ تحائف باقاعدگی سے سلطان ترکی کو بھیجتے تھے کہ کہیں وہ ان کے ممالک پر چڑھائی نہ کردیں۔ تقریباً 1682 ءمیں ترکوں نے ویانا کا محاصرہ کرلیا تھا اورمسلمان اسپین سے بڑھ کر فرانس کے شہر Tours تک پہنچ گئے تھے مگر بہت کم تعداد میں تھے اسلئے وہاں سے پسپا ہوکر اسپین واپس چلے گئے ۔
ہم سب کو علم ہے کہ جب اسرائیل نے ستّر کی دہائی میں بیت المقدس اور اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو مغربی ممالک نے صرف زبانی جمع خرچ کیا اور دو ریاستوں کی تجویز کی زبانی حمایت کی مگر اندر اندر اسرائیل کی حوصلہ افزائی کرتے رہے اور اگر UNO میں کوئی ریزولوشن آیا تو امریکہ نے فوراً ویٹو کردیا۔ آہستہ آہستہ مغربی ممالک کی ہمت افزائی سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی زندگی حرام کردی اور مغربی کنارے میں آبادیاں قائم کرکے قبضہ کرلیا۔ اس میں بدقسمتی سے سعودی عرب اور مصر نے زیادہ دلچسپی نہ لی اور نہ ہی امریکہ پر زور دیا کہ وہ دو ریاستی تجویز کو عملی جامہ پہنا دے۔اِستنبول میں باتیں بہت ہوئی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم بھی وہاں موجود تھے۔ وہاں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے کی بات ہوئی۔ یہاں تین ہفتوں میں یہ وزیر اعظم 2ہزار احتجاجیوں کو فیض آباد سے نہ اُٹھا سکے اور امریکہ اور اسرائیل کو بیت المقدس سے اُٹھانے کی بات ہورہی ہے۔ اس سے پیشتر ایک سابق وزیر اعظم 6 ماہ تک ڈی چوک سے 5 ہزار افراد کو نہ ہٹا سکے اور انھوں نے T.V. اسٹیشن اور پارلیمنٹ میں تباہی مچا دی تھی۔
فلسطین کے بارے میں چند حقائق پیش ہیں۔ جنگ عظیم اوّل کے بعد فرانس اور برطانیہ نے عرب ملکوں کو مالِ غنیمت کی طرح بانٹ لیا تھا اور عراق اور فلسطین انگریزوں نے لے لئے اور شام پر فرانس نے قبضہ کرلیا تھا۔ اور یہ کہ جب شامی عوام نے شاہ فیصل بن شریف حسین کو اپنا بادشاہ مقرر کیا تو فرانس نے بزور قوّت ان کو بے دخل کردیا اور جب شامی عوام نے مداخلت کی تو فرانس نے سینیگال سے مسلمان فوج ہی کے ذریعے ان کا قتل عام کرایا۔ جگہ کی کمی کی وجہ سے میں ابتدائی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا چند ضروری حقائق بیان کردیتا ہوں۔ چند سال پیشتر صدر اوباما نے جامعہ الازہر میں ایک تقریر کی اور مسلمانوں کے اور اسلام کے بارے میں چند باتیں کیں تو میں نے فروری 2009ءمیں ان ہی اخبارات میں ایک مضمون لکھا تھا کہ اوباما کی یہ تقریر (اور بعد میں انقرہ میں پیش کردہ تقریر) عیّاری اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے حالانکہ بہت سے مسلمانوں اور خود ہمارے یہاں امریکی ہمدردوں نے اسکی بہت تعریف کی اور اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ اب واقعی اوبامامسلمان ہونے اور اسلام پر عمل کرنے کی وجہ سے یقینا ًمسلمانوں کے جائز حقوق پامال نہیں کریگا۔ جب اوباما نے یہ کہا کہ وہ اور امریکہ اسلام کے دُشمن نہیں ہیں تو میں نے صاف طور پر بتلایا تھا کہ ہاں یہ اسلام کا دشمن نہیں ہے مگر اسلام اور مسلمانوں میں تفریق کرتا ہے اور بیگناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کو بُرانہیں سمجھتا بلکہ باعث فخر سمجھتا ہے۔بعد میں 21ستمبر 2011ءکو اوباما نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی اور کہا کہ مشرق وسطیٰ (یعنی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان) میں امن معاہدہ بیانات اور قراردادوں سے حاصل نہیں ہوگا (اسرائیل کا ناجائز قیام تو قرارداد سے وجود میں آسکتا ہے!) بلکہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات سے حاصل ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ مذاکرات اور معاہدے اس وقت کامیاب ہوتے ہیں جب دونوں مخالفین کم و بیش ہم وزن ہوں اور برابر کی قوّت رکھتے ہوں۔ ایک طرف تو مغربی ممالک نے اسرائیل کو ایٹم بم بنانے کی تمام سہولتیں اور جدید ترین ہتھیار دے کر اتنا طاقتور کردیا کہ وہ ایک ہفتہ میں تمام عرب ممالک کی مشترکہ افواج کا قلع قمع کرنے کے قابل تھا اور دوسری طرف فلسطینی تھے جن کے پاس سوائے پتھروں اور غلیلوں کے کچھ نہ تھا۔ یہ تو ایسا ہی حال تھا کہ ایک شیر اور بکری کو پنجرے میں چھوڑ دیا جائے کہ وہ امن و امان اور افہام و تفہیم سے ایک ساتھ رہیں۔ جو نتیجہ یہاں ہوگا وہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ہوا ہے۔ مغربی ممالک نے ہمیشہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں اور سیدھے سادھے عوام کو نہایت چالاکی سے اپنا غلام بنا لیا۔ ان ممالک کے قدرتی وسائل لوٹ لئے اورعوام کو جہالت کے کنوئیں میں دھکیل دیا۔ موجودہ دور میں آپ کے سامنے عراق اور افغانستان کے واقعات ہیں۔ ان ممالک کیخلاف جھوٹے الزام لگا کر بش اور بلیئر نے ان کو تباہ کردیا ۔ تقریباً پندرہ لاکھ بیگناہ افراد قتل کردیئے، انکے خزانے خالی کردیئے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرلیا۔ ایک آکٹوپس کی طرح ان لوگوں نے بے بس مچھلی کی طرح ان کو جکڑ لیا ہے اور ان کا خون چوس رہے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ان کی تمام توجہ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کو تباہ کرنے پر ہے۔ کشمیر، فلسطین کے تنازعات ان میں سب سے نمایاں ہیں۔ ان کی نگاہ میں نہ ہی کشمیری اور نہ ہی فلسطینی انسان ہیں اور نہ ہی کسی ہمدردی یا انسانی حقوق کے مستحق ہیں۔ فلسطینی عوام کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ابھی حکمرانی کے قابل نہیں ہیں، ان کے پاس اچھے ادارے نہیں ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پوری عرب آبادی میں فلسطینی سب سے زیادہ مہذّب اور تعلیمیافتہ ہیں۔ انہوں نے نہایت اعلیٰ ادیب، منتظم اور پروفیسر پیدا کئے ہیں اور ان کی قابلیت پر شک کیا جارہا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ ذرا مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کا تعلیمی معیار اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد دیکھئے۔ ننگے، آدمخور، جانوروں کی کھال باندھ کر رہنے والے تو حکومت چلانے کے قابل سمجھے گئے اور بزور قوّت و دبائو ان کو آزاد کرادیا گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ مغربی ممالک نے صلیبی جنگوں پر عمل کرتے ہوئے ان کو آزاد کرانا اپنا فرض سمجھ لیا تھا اور آزاد کرادیا۔
فلسطین کے بارے میں اسی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے تمام مغربی ممالک میں یہودی دوسرے درجہ کے شہری سمجھے جاتے تھے ان کو گالیاں دی جاتی تھیں ان کی دوکانوں پر ’’کتے‘‘ لکھا جاتا تھا۔ آپ کو علم ہوگا پہلی جنگ عظیم سے پیشتر تمام اسلامی ممالک سلطنت عثمانیہ کا حصّہ تھے۔ صرف مراکش اور ماریطانیہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور جرمنی کی شکست کے بعد برطانیہ اور فرانس نے تمام عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کہ ’’یہود اور نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست یا محافظ نہیں ہوسکتے وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ان سے دوستی نہ کرو اور جو مسلمان ان کا ساتھ دے گا وہ انہی میں سے ہوجائے گا اور اس کا انجام بُرا ہوگا‘‘ کو بھلا دیا۔ ساتھ اللہ کے فرمان کو مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انہیں اپنے تمام تنازعات کو آپس میں افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہئے ،نظر انداز کرکے اپنے زوال کے بیج بو دیئے۔ اسپین، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ان کے زوال اور بے عزّتی کی وجہ آپس کے جھگڑے اور دشمنوں سے ملکر ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ عربوں نے ترکوں کے خلاف انگریزوں اور فرانسیسیوں کے اُکسانے پر بغاوت کی اور اس قابل نفرت سازش میں حجاز کے والی شریف حسین نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ انگریزوں نے اپنے ایک فوجی ٹی۔ای لارنس کو اس سازش کا سربراہ بنا کر بھیجا۔ یہ روانی سے عربی بولتا تھا۔ اس نے غدّار عربوں سے ترکوں پر حملے کرانا شروع کردیئے اور تخریبی کارروائیاں شروع کردیں۔ سلطان ترکی نے ان علاقوں میں بہت تعمیری کام کئے تھے اور دمشق سے بیروت، حیفہ تک ریلوے لائن ڈالدی تھی۔ چند عرب غدّاروں نے خانہ کعبہ پر گولہ باری کرکے اور حرم کے اندر لاتعداد ترکوں کا قتل عام کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اسپین کے عیسائیوں نے ہزاروں یہودیوں کو ملک بدر کیا تو کسی عیسائی ملک نے ان کو قبول نہ کیا بلکہ سلطان ترکی نے ان کو خوش آمدید کہا اور تمام سہولتیں دیں۔
انگریزوں اور فرانسیسیوں نے عربوں سے وعدہ کیا تھا کہ جنگ ختم ہونے پر وہ بالکل آزاد اور خود مختار ہونگے مگر جب مغربی فوجیں شام میں داخل ہوئیں (یہ 1919 کا واقعہ ہے) تو عربوں نے شام کو ایک آزاد ملک قرار دے کر شاہ فیصل کو بادشاہ بنا دیا۔ لیکن انگریز اور فرانسیسیوں کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ پہلے ہی طے پاچکا تھا۔ عراق اور فلسطین پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور شام فرانس نے لے لیا۔ جب عربوں نے شاہ فیصل کیساتھ مداخلت کی تو سینیگال سے لائی ہوئی مسلمان فوج سے ہی مسلمانوں کا قتل عام کرایا۔ اس وقت لبنان شام کا حصّہ تھا۔ فرانس نے وہاں عیسائی اکثریت پیدا کرکے اسکو آزاد ملک بنا دیا۔ 1920ء میںجب شاہ فیصل بن شریف حسین شام کا بادشاہ بنا تو اردن شام کا حصّہ تھا۔ شاہ فیصل کے بے دخل کرنے کے بعد فرانسیسیوں نے اس کے بھائی عبداللہ بن حسین کو اردن کا امیر تسلیم کرلیا۔ یہ انگریزوں کا پٹھو تھا اور اس نے فوج اور نظام حکومت انگریزوں کے حوالے کردیئے۔ انگریزوں نے شاہ فیصل کو جو بہت ذہین انسان مانا جاتا تھا، عراق کا بادشاہ بنا دیا۔ مارچ 1946 ءکو اردن کو مکمل آزادی مل گئی۔ 1947ءمیں جب انگریزوں کا فلسطین سے اِنخلا شروع ہوا تو عرب ممالک نے یہودیوں کے قبضہ کو روکنے کیلئے جنگ چھیڑ دی۔ شام اور مصر کی فوجیں اس میں ناکام رہیں مگر اردن کی فوج نے مغربی کنارے اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔
درحقیقت اسرائیل کی توسیع اور عربوں کی شکست اور ہزیمت میں غیرمصلحتانہ پالیسیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

تازہ ترین