• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں ( فاٹا ) کے حوالے سے اصلاحات پر عمل درآمد میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ان علاقوں میں ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا ہے ، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ علاقے کسی ’’ گریٹر گیم ‘‘ کا میدان رہے ہیں اور فاٹا اصلاحات میں تاخیر بھی اس گریٹر گیم کا حصہ ہے ۔ فاٹا میں بہت سی قوتوں کے مخصوص مفادات ہیں ۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہاں ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رہے ۔ برطانوی نو آبادی حکمرانوں نے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع قبائلی علاقوں کو ( جنہیں آج فاٹا کا نام دیا جاتا ہے ) افغانستان اور برطانوی فوج والے ہندوستانی علاقوں کے درمیان ’’ بفر ‘‘ ( Buffer ) کے طور پر استعمال کیا ۔ برطانوی راج نے اس علاقے کے عوام کو بدنام زمانہ ’’ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ‘‘ ( ایف سی آر ) کے ذریعے کنٹرول کیا ، جس کے تحت مقامی عمائدین ( ملکوں ) کو خاطر خواہ اختیارات دیئے گئے لیکن اصل اختیارات برطانوی راج کے نمائندہ پولٹیکل ایجنٹ کے پاس تھے اس سسٹم کے رائج ہونے کے بعد یہ علاقے اس خطے میں عالمی طاقتوں کے گریٹر گیم کا میدان بن گئے ۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ان علاقوں کو ایف سی آر کے ذریعے چلایا گیا اور انہیں وفاق کے زیر انتظام کر دیا گیا ۔ یہاں کے لوگوں کو پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح نہ تو سیاست اور ووٹ کا حق دیا گیا اور نہ ہی صوبوں یا وفاقی اکائیوں کی طرح خود مختاری یا نظام حکومت دیا گیا ۔ ان علاقوں کو بنیادی دھارے میں شامل نہیں کیا گیا اور مکمل نظر انداز کیا گیا ۔ اسے پاکستانی حکمرانوں کی لاشعوری غلطی یا لاپروائی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس علاقے کی اسٹرٹیجک پوزیشن اور یہاں عالمی طاقتوں کی دلچسپی سے وہ آگاہ تھے ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انگریزوں نے اس علاقے کو بفر کے طور پر کیوں استعمال کیا ۔ بعد ازاں جن پاکستانی حکمرانوں نے فاٹا کو بنیادی دھارے میں لانے کیلئے اقدامات نہیں کئے ، انہیں بھی تاریخ بے قصور قرار نہیں دے سکتی ۔
دنیا نے پھر دیکھا کہ سیاہ قانون ’’ ایف سی آر کے ذریعے چلنے والے فاٹا کے علاقے میں گریٹر گیم نے کس طرح تباہی مچائی ۔ 1980 ء کی دہائی میں یہاں مجاہدین کی یلغار ہوئی ، جو امریکی سی آئی اے کے آپریشن ’’ سائیکلون ‘‘ کے تحت سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے بعد صف آراء ہوئے کیونکہ سوویت افواج افغانستان میں داخل ہو چکی تھیں ۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد فاٹا میں تحریک طالبان کے جنگجو داخل ہوئے ، جو اس مرتبہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے تھے کیونکہ 2001 ء میں ’’ نائن الیون ‘‘ کے ڈرامے کے بعد افغانستان میں سوویت یونین کی جگہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج کا قبضہ ہو چکا تھا ۔ پھر فاٹا میں طالبان کے ساتھ ساتھ القاعدہ اور داعش نامی دہشت گرد تنظیموں نے اپنے پنجے گاڑھے ۔ ان تنظیموں کے اندر سے کئی گروہ پیدا ہوئے ۔ پھر وہاں پاکستانی افواج نے ایک کے بعد دوسرا آپریشن شروع کیا اور یہ آپریشن آج تک جاری ہیں لیکن 1980 ء کے عشرے کی ابتدا سے آج تک وہاں انسانی آبادیاں اجڑ رہی ہیں اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں ۔ اگر پاکستان کے قیام کے بعد ان علاقوں کو بنیادی دھارے میں شامل کیا جاتا تو یہ علاقے گریٹر گیم کا میدان نہ بنتے اور یہاں کے پرامن لوگوں پر بدامنی کے عذاب نازل نہ ہو تے ۔
ذوالفقار علی بھٹو جیسے مدبر سیاستدان نے سب سے پہلے ان علاقوں کو بنیادی دھارے میں شامل کرنے کیلئے سنجیدہ کوشش کی اور جنرل (ر) نصیر الدین بابر کی سربراہی میں فاٹا ریفارمز کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ بھٹو جانتے تھے کہ اس خطے کا سارا کھیل اب ان علاقوں میں ہو گا کیونکہ یہاں پر پاکستانی ریاست کا کنٹرول بہت کمزور ہے اور ان علاقوں کا محل وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ریفارمز کمیٹی کو ہدایت کی گئی تھی کہ فاٹا کو صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا ) میں ضم کیا جائے اور 1977ءکے عام انتخابات میں ان علاقوں کو بھی شامل کیا جائے لیکن جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی وجہ سے بھٹو کے اس منصوبے پر عمل نہ ہو سکا ۔ البتہ عالمی منصوبے پر عمل ہوا اور فاٹا کو مجاہدین نے تاتار کر دیا ۔ اگر جنرل (ر) نصیرالدین کمیٹی کی اصلاحات پر عمل درآمد ہو جاتا تو فاٹا کے علاقے آج دنیا کے خطرناک ترین علاقے نہ ہوتے اور نہ ہی عالمی طاقتیں انہیں گریٹر گیم کا میدان بنا سکتیں ۔ فاٹا میں اصلاحات کی دوسری کوشش بھی 1996 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے کی ، جب فاٹا کے عوام کو ووٹ کا حق دیا گیا ۔ اصلاحات کے اس عمل کو آگے بڑھنا چاہئے تھا ۔ پولٹیکل پارٹیز آرڈر کو وہاں تک توسیع دی جاتی اور وہاں سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی اجازت دی جاتی ۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جاتا لیکن یہ سارے کام نہ ہو سکے ۔ پھر 1999 میں ایک اور گریٹر گیم نے فاٹا کے علاقوں کو خون میں نہلا دیا ۔ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے وہاں پولٹیکل پارٹیز آرڈر کو فاٹا تک توسیع دی ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے فاٹا میں جامع اصلاحات کیلئے انہیں بنیادوں پر کام شروع کیا ، جس کا آغاز بھٹو نے کیا تھا ۔ سینیٹر سرتاج عزیز کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کمیٹی نے وہاں کے تمام مکاتب فکر اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے مشاورت کرکے اپنی سفارشات مرتب کی ہیں ۔ یہ لازم ہو گیا ہے کہ فاٹا ریفارمز کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد میں مزید تاخیر نہ کی جائے ۔ فاٹا ریفارمز بل کو فوری طور پر منظور کرایا جائے کیونکہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت بہت کم رہ گئی ہے ۔ ان اسمبلیوں کی موجودگی میں نہ صرف فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرایا جائے بلکہ اصلاحات پر عمل درآمد کا فریم ورک بھی موجودہ منتخب نمائندوں سے مرتب کرایا جائے کیونکہ اس معاملے پر ان میں بہت حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ یہ تاریخی موقع ضائع نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پاکستان میں ایک بار پھر جمہوریت کیلئے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) ، عالمی اور علاقائی سطح پر ہونے والی نئی صف بندیوں کے باعث ایک نئے گریٹر گیم کیلئے حالات بن چکے ہیں ۔ ماضی میں ایک مرتبہ پاکستان میں جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے بعد افغانستان میں امریکہ اور سوویت یونین کی جنگ ہوئی۔ دوسری مرتبہ پاکستان میں جہوریت کے ڈی ریل ہونے سے امریکہ اور نام نہاد انتہا پسند تنظیموں کے مابین مصنوعی لڑائی سے فاٹا کے علاقے تباہ ہوئے ۔ اب پھر نہ صرف جمہوریت کو خطرہ ہے بلکہ اس خطے میں ایک اور بڑی جنگ کے اثار نمودار ہو رہے ہیں ۔ اس سے پہلے فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد کیا جائے تاکہ نئے گریٹر گیم سے پاکستان کو زیادہ نقصان نہ پہنچے ۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کا فاٹا میں کوئی ’’ اسٹیک ‘‘ نہیں ہے ۔ وہ صرف فاٹا ریفارمز میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں جبکہ پاکستان ان ریفارمز میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

تازہ ترین