• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل پاکستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات کی نزاکت کوبھانپتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نواز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو2018کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے کی صورت میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کردیا۔ یہ خبر سب کے لئے حیران کن بھی تھی اور سب کو اس کی توقع بھی تھی۔ اس اعلان سے کم از کم یہ تاثر تو ختم ہوگیا کہ دونوں بھائیوں میں کوئی اختلاف ہے، بلکہ یہ واضح ہوگیا کہ دونوں بھائی اندر سے ایک ہیں، اس اعلان کا پس منظر جو سمجھ آرہا ہے، وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے 28جولائی کے فیصلہ کے بعد میاں نواز شریف چونکہ عملاً نااہل قرار دئیے جاچکے ہیں جس کے بعد پارٹی میں مختلف قسم کی اطلاعات گردش کررہی تھیں، میاں نواز شریف نے وقتی طور پر پارٹی کی اندرونی پوزیشن کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے یہ اعلان کیا، اس لئے کہ ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر میڈیا سمیت بعض حلقوں میں یہ تاثر پھیلایا جارہا تھا کہ میاں شہباز شریف کو آگے لانا چاہئے۔ ان سب کو شاید یہ سب پتہ نہیں ہے کہ ووٹ بنک تو میاں نواز شریف کا ہے، شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ضرور ہیں،، مگر جو لوگ ان کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ ہمارا اس معاملہ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگلے سال صدر ممنون حسین کی صدارتی مدت بھی پوری ہورہی ہے۔ شاید اس سے قبل مسلم لیگ(ن) بہترین حکمت عملی کے تحت ایسے حالات پیدا کردے گی جس سے ملک میں صدارتی منصب کے لئے میاں نواز شریف کا نام سامنے لایا جائے گا اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پروا کئے بغیر انہیں صدر بنوانے کی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ یہ سب انتخابی نتائج پر منحصر ہوگا، مگر یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم بنیں یا نہ بنیں مگر نواز شریف صدر بن جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا، اگر اس سے پہلے میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو کسی نہ کسی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب بنوانے کے منصوبہ پر کام شروع کردیا جائے۔ پاکستان میں سیاسی حالات ایک زمانے میں کبھی کبھی بدلا کرتے تھے۔ اب تو روزانہ کی بنیاد پر بدل رہے ہیں، ا س لئے میاں نواز شریف کے اعلان کو’’سیاسی چھکا‘‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے جس کے بعد ہر پارٹی کا اپنا اپنا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ اب کوئی میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی کرپشن پر زیادہ بات نہیں کررہا۔ کوئی بھی ادارہ ان کے خلاف اس طرح کام کرنے میں سرگرم نہیں ہے، جس طرح اس کو کرنا چاہئے۔ یہ سب حالات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی موثر حکمت عملی کے باعث انہیں نااہل قرار دئیے جانے کے باوجود سیاسی میدان میں انہیں نکالنے کا کوئی راستہ واضح نہیں ہوسکا۔ان حالات کا سب سے گہرا اثر ملکی معاشی حالات پر پڑرہا ہے۔ وزیر اعظم عباسی مختلف منصوبوں کا افتتاح تو کرتے جارہے ہیں مگر روزمرہ کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے وہ کام نہیں ہورہا جو کیا جانا چاہئے جس کی وجہ سے معاشی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہر لحاظ سے تشویشناک ہے۔ ان حالات میں اگر انتخابی ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو مسلم لیگ(ن) کے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی کئی مشکلات آڑے آسکتی ہیں جس کے باعث معاملات مخلوط نظام حکومت کی طرف جاتے ہیں جس کا فائدہ نہ تو سیاسی جماعتوں کو ہوگا اور نہ ہی عوام کو۔ عوام کو جمہوریت کے استحکام اور تقویت میں اضافہ سے ہی کچھ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، مگر اس کے لئے ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو میچورٹی کے ساتھ آنے والے حالات کی سنگینی کا احساس کرنا ہوگا، اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو پھر وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جو اکثر پاکستانیوں کے ذہن ا ور دل میں ہے، اس لئے حالات کی نزاکت کا احساس کیا جانا چاہئے ، لہٰذا ملک میں مضبوط معیشت ہی کی بنیاد پر جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے۔ یہی ہم سب کی ضرورت اور قومی مفاد میں ہے مگر جمہوریت کا نام لے کر جمہوریت دشمن جیسے رویے انسانوں کو نہیں قوموں کو بہت بڑا نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔

تازہ ترین